Contents show

Urdu Stories

Urdu Stories are very helpful if you want to Join Pak Defence Forces Like Pak Army, Pak Navy or Pakistan Air Force. These notes are particularly helps those students who are preparing tests for joining Cadet Colleges. If you want to learn about more then Subcribe our YouTube channel of Shaheen Forces Academy, or Forces Intelligence. You can practice online HERE. For more notes of the subjects CLICK HERE. Install our mobile application of “Shaheen Forces“.

کہانیاں

کہانی لکھنے کے لیے ضروری ہدایات

کہانی لکھنے کے لیے درج ذیل باتوں کو ذہن میں رکھیں۔

1۔ سب سے اوپر ا ذراواضع کر کے کہانی کا عنوان لکھیں۔

2۔ کہانی گزرا ہوا ہوتی ہے اسے فعل ماضی میں تحریر کیجیے۔

3۔ہر کہانی کا آغاز ایک نقطہ عروج اور ہاتھ محنتی جاتا ہے اس ترتیب کا خیال رکھیں۔

4۔ کہانیوں کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیجئے اگر آپ کہانی کا ایک حصہ ہونے کی حیثیت سے دوسرے پیراگراف سے  اللہ گولن تمام پیراگراف باہم مربوط ہوں جن سے کہانی مین ایک تسلسل پایا جائے۔

5۔ جملے چھوٹی ہو جب ان سادہ اور عام فہم اور خوبصورت الفاظ محاورات اور ضرب الامثال کا استعمال ضرور کیجیے۔ مثلا نگاری بھی کیجیئے۔ منظر نگاری بھی کیجئے موضوع اشعار بھی حسب موقع ضرور لکھیں۔ انہیں زبردستی اور بے محل عبارت کو کہانی کا حصہ مت بنائیں۔

6۔ مضمون کہانیاں خط جو کچھ بھی لکھیں اسے دوبارہ پڑھانا اپنی عادت بنا لیں اپنی اکثر غلطیاں دوبارہ پڑھنے سے خود ہی درست کر سکتے ہیں۔

 

رحم دلی

سبکتگین غزنی کا ایک معمولی سردار تھا لیکن بحد رحم دلخلق  خدا کی خدمت کرنے والا اور خود تکلیف اٹھا کر بھی دوسروں کو آرام پہنچانے والا تھا۔ اسے شکار کا بڑا شوق تھا۔ جناب آپ سے ایک دن شکار کو نکلا تو دن بھر کوئی جانور نہ لگا۔ شام کو ناچار خالی ہاتھ لوٹ رہا تھا کہ اس نے دیکھا کے ایک ہرنی  کا چھوٹا سا بچہ معصومیت سے گھاس پر چوکڑیاں پر رہا ہے سبکتگین نے اس کے پیچھے گھوڑا سرپٹ دوڑ آیا اور تھوڑی ہی دیر میں اسے جا لیا اسے پکڑ کر رسی سے باندھا اپنے گھوڑے پر رکھا اور کہا کہ چلو آج یہی غنیمت ہے اور گھر کی راہ لی۔  اب یہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اسے اپنے پیچھے کسی جانور کی قدموں کی چاپ سنائی دیں اس نے مڑ کر دیکھا کہ ایک ہمیں اس کے پیچھے پیچھے آ رہی ہے سبق میں نے فرمایا کے ایس بچے کی ماں ہے جو اپنے بچے کی جدائی کی وجہ سے بے قرار ہے رحم دل تو تھا ماں کے دل کے اضطراب کو نہ دے سکا اس نے فورا رسیوں کو کھولا اور ہرن کے بچے کو آزاد کر دیا وہ دوڑ کر اپنی ماں سے لپٹ گیا اور ماں سے پیار اس کی بلائیں لینے لگی دونوں ماں بیٹے نے سبکتگین کی طرف احسان مندی سے دیکھتے ہوئے سر جھکالیا اور پھر چوکڑیاں بھرتے ہوئے جنگل سے دور غائب ہوگئے۔

شیر سبکتگین کو یہ منظر دیکھ کر اس سے کہیں زیادہ خوشی ہوئی۔ جو اسے ہرن کا بچہ شکار کرتے وقت ملی تھی۔ کہتے ہیں کہ اسی رات اسے خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی آپ نے سبکتگین کی اس  رحم دلی کو تحسین کی نظر سے دیکھا اور یہ بشارت دی کہ اللہ تعالی کو اس کا یہ حال اس قدر پسند آیا کے اس نے سبکتگین کی قسمت میں غزنی کی بادشاہت لکھ دیا ہے۔ خواب میں ملیں بشارت ہرف  باہرف صحیح ثابت ہوئی۔ اور تھوڑے ہی عرصے بعد سبکتگین پوری غزنی کا بادشا ہ بن گیا۔ اب وہ اپنی رعایا پر پہلے سے بھی زیادہ مہربان تھا۔ اور اس نے بڑے عدل و انصاف کے ساتھ غزنی پر حکومت کی اور بہت جلد رعایا  پر خوشحال ہوگی۔  اسی سبکتگین کا بیٹا سلطان محمود غزنوی تھا  جو اشاعت اسلام کا اتنا شیدائی تھا کہ اس نے برصغیر پر سترہ حملے کیے تھے کیوں کہ حملے کے بعد ہندوستان کے راج اپنے کیے ہوئے وعدے سے پھر جاتے تھے ۔

جھوٹ کا انجام

کہتے ہیں۔ کہ کسی پہاڑی کے دامن میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس میں ایک گڑیا رہتا تھا اس کے پاس بھیڑ بکریاں تھیں جنہں وہ پہاڑی پر لے جاتا بکریاں وہاں دن بھر چرتی  رہتں شام کو انہیں  ہانگ کر گھر لے آتا ،بس یہی بھیڑ بکریاں  اس کی گزر اوقات کا ذریعہ تہہیں شیطان انسان کو شرارتوں پر اکساتا رہتا ہے اچھے لوگ وہی ہیں جو ہر کام کرنے سے پہلے اس کے انجام کو سوچ لیتے ہیں۔ ایک دن بھیڑ بکریاں چر رہی تھی ۔ گڈریا بیکار بیٹھا تھا۔ اسے شرارت  جو سوجہی ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کرزور زورسے چلانے لگا  ۔شیر آیا دوڑ کر آؤ اور میری مدد کرو ۔دیہاتی لوگ سادہ ہوتے ہیں۔ اور ہمدرد  بھی ، جوہی انہوں نے    گڑرےکی آواز سنی تو ہر ایک لاٹہی، کلہاڑی نیزہ حتکہ جو بھی کچھ ہاتھ لگا اٹھا کر بھاگ کھڑا ہوا لیکن جب وہاں پہنچے تو انہیں کہیں بھی شیر نظر نہ آیا۔ گڑیےسے پوچھا تو اس نے ہنس کر اتنا کہہ دیا کہ میں تو اسے مذاق کر رہا تھا ۔یہاں پر ،شیر،ویر،کوئ  نہیں آیا ۔لوگ بڑے گھسانے ہوئے اور اسے لعن۔طعن  کرتے ہوئے واپس چلے گئے۔

جب شیطان انسان کو بہکاتا ہے تو اسے دوسروں کو پریشان کرنے میں لطف آنے لگتا ہے کچھ دن بعد گڑرۓ کو پھر شرارت سوجھی اس نے پہلے کی طرح اونچے ٹیلے پر چڑھ کر شور مچانا شروع کر دیا شیر آیا شیر آیا مجھے بچاؤ مجھے بچاؤ اور فورا میری مدد کو پہنچو  میری مدد کرو بچاؤ بچاؤ بچاؤ۔دیہاتی   سادہ تو ہوتے ہیں پھر اس کی باتوں میں آگئے سمجھے کہ بے چارے کی جان خطرے میں ہے فورا جو کچھ کسی سے بن پایا لے کر بھاگ آئے   لیکن  گڑرےنے پھررانت نکال دیے کہنے لگا یہ تو صرف مذاق یہاں شیر آیا ہی نہیں لوگوں کو بڑا غصہ آیا اسے لعنت ملامت کی اور یہ عہد کر لیا کہ آئندہ کبھی بھی اس کی بات پر یقین نہیں کریں گے۔

اللہ کی شان دیکھیے کہ اس واقعہ کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ وہاں سچ مچ ایک شیر آنکلاشیر دیکھتےہی گڈریا کی جان جاتی رہی ہے تاہم اس نے اپنے اوسان بحال رکھتے ہوئے اس ٹیلے پر چڑھ کر زور سے چلانا شروع  کر دیا لوگو اب تک مچ آگیا ہے دوڑو اور فورا میری مدد کو پہنچوں ورنہ شیر مجھے کھا جائے گا لوگوں نے سنا تو یہی سمجھا کہ گڑیا آپ بھی پہلے کی طرح ہماری ہمدردی اور خلوص کا مذاق اڑا رہا ہے کوئی بھی اس کی مدد کو نا آیا  یہاں تک کہ شیر نے ایک ایک  ہی،کر۔کے   اس کی بکریوں کو پھاڑ دیا پھر دھاڑتا ہوا گڑیا پر حملہ آور ہونے کولپکا لکین   اتنی دیر میں وہ ایک اونچے مضبوط درخت پر چڑھ چکا تھا شیر کا بھی اب  پیٹ بھر چکا تھا کچھ دیر دھاڑنے  غرانےکےبعدٹہہلتاہواجدہرسےآیاادہرنکل،گیا جھوٹ بولنے سے توبہ کرنے کے لئے زندہ رہنے کی مزید مہلت دی تھی شام کو جب ویدر یہ خالی ہاتھ روتا ہوا گاؤں میں داخل ہوا تو لوگوں نے اس کے ساتھ ہمدردی تو کی لیکن یہ بات بہرحال وہ خود بھی سمجھ چکا تھا کہ اگر وہ پہلے شرارتاں جھوٹ بول کر اپنا اعتبار نہ ہو چکا ہوتا تو اب اس کے سچ کو بھی جھوٹ نہ سمجھا جاتا چنانچہ اب اس نے باقی عمر کے لیے جھوٹ سے توبہ کرلی تو میں تمہارا   تیجہ،  جھوٹ کا انجام برا ہوتا ہے۔ جھوٹ انسان کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔ جنہں وہ پہاڑی پر لے جاتا بکریاں وہاں دن بھر چرتی  رہتں شام کو انہیں  ہانگ کر گھر لے آتا ،بس یہی بھیڑ بکریاں  اس کی گزر اوقات کا ذریعہ تہہیں شیطان انسان کو شرارتوں پر اکساتا رہتا ہے اچھے لوگ وہی ہیں جو ہر کام کرنے سے پہلے اس کے انجام کو سوچ لیتے ہیں۔

ایک دن بھیڑ بکریاں چر رہی تھی ۔ گڈریا بیکار بیٹھا تھا۔ اسے شرارت  جو سوجہی ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کرزور زورسے چلانے لگا  ۔شیر آیا دوڑ کر آؤ اور میری مدد کرو ۔دیہاتی لوگ سادہ ہوتے ہیں۔ اور ہمدرد  بھی ، جوہی انہوں نے    گڑرےکی آواز سنی تو ہر ایک لاٹہی، کلہاڑی نیزہ حتکہ جو بھی کچھ ہاتھ لگا اٹھا کر بھاگ کھڑا ہوا لیکن جب وہاں پہنچے تو انہیں کہیں بھی شیر نظر نہ آیا۔ گڑیےسے پوچھا تو اس نے ہنس کر اتنا کہہ دیا کہ میں تو اسے مذاق کر رہا تھا ۔یہاں پر ،شیر،ویر،کوئ   نہیں آیا ۔لوگ بڑے گھسانے ہوئے اور اسے لعن۔طعن   کرتے ہوئے واپس چلے گئے۔ جب شیطان انسان کو بہکاتا ہے تو اسے دوسروں کو پریشان کرنے میں لطف آنے لگتا ہے کچھ دن بعد گڑرۓ کو پھر شرارت سوجھی اس نے پہلے کی طرح اونچے ٹیلے پر چڑھ کر شور مچانا شروع کر دیا شیر آیا شیر آیا مجھے بچاؤ مجھے بچاؤ اور فورا میری مدد کو پہنچو  میری مدد کرو بچاؤ بچاؤ بچاؤ۔

دیہاتی    سادہ تو ہوتے ہیں پھر اس کی باتوں میں آگئے سمجھے کہ بے چارے کی جان خطرے میں ہے فورا جو کچھ کسی سے بن پایا لے کر بھاگ آئے   لیکن  گڑرےنے پھررانت نکال دیے کہنے لگا یہ تو صرف مذاق یہاں شیر آیا ہی نہیں لوگوں کو بڑا غصہ آیا اسے لعنت ملامت کی اور یہ عہد کر لیا کہ آئندہ کبھی بھی اس کی بات پر یقین نہیں کریں گے۔ اللہ کی شان دیکھیے کہ اس واقعہ کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ وہاں سچ مچ ایک شیر آنکلاشیر دیکھتےہی گڈریا کی جان جاتی رہی ہے تاہم اس نے اپنے اوسان بحال رکھتے ہوئے اس ٹیلے پر چڑھ کر زور سے چلانا شروع  کر دیا لوگو اب تک مچ آگیا ہے دوڑو اور فورا میری مدد کو پہنچوں ورنہ شیر مجھے کھا جائے گا لوگوں نے سنا تو یہی سمجھا کہ گڑیا آپ بھی پہلے کی طرح ہماری ہمدردی اور خلوص کا مذاق اڑا رہا ہے کوئی بھی اس کی مدد کو نا آیا  یہاں تک کہ شیر نے ایک ایک  ہی،کر۔کے   اس کی بکریوں کو پھاڑ دیا پھر دھاڑتا ہوا گڑیا پر حملہ آور ہونے کولپکا لکین   اتنی دیر میں وہ ایک اونچے مضبوط درخت پر چڑھ چکا تھا شیر کا بھی اب پیٹ بھر چکا تھا کچھ دیر دھاڑنے  غرانےکےبعدٹہہلتاہواجدہرسےآیاادہرنکل،گیا ۔

جھوٹ بولنے سے توبہ کرنے کے لئے زندہ رہنے کی مزید مہلت دی تھی شام کو جب ویدر یہ خالی ہاتھ روتا ہوا گاؤں میں داخل ہوا تو لوگوں نے اس کے ساتھ ہمدردی تو کی لیکن یہ بات بہرحال وہ خود بھی سمجھ چکا تھا کہ اگر وہ پہلے شرارتاں جھوٹ بول کر اپنا اعتبار نہ ہو چکا ہوتا تو اب اس کے سچ کو بھی جھوٹ نہ سمجھا جاتا چنانچہ اب اس نے باقی عمر کے لیے جھوٹ سے توبہ کرلی ۔

نتیجہ:   جھوٹ کا انجام برا ہوتا ہے۔ جھوٹ انسان کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے

شیر اور چوہا

کہتے ہیں کہ کسی جنگل میں ایک شیر رہتا تھا  دوپہر کا وقت تھا بہت دھوپ پڑ رہی تھی  تھی۔ شیر پھرتا   پھرتا تھا گیا  تو بڑے  ایک  گھنے درخت  کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں لے لیا گیا۔ تھکا ہوا تھا۔ اتفاق سے اس کی جڑ میں ایک چوہے کا بل تھا  یوم خوراک کی تلاش میں نکلا تو اسے معلوم ہوا کہ ایک شیر سو رہا ہے  ہلکی ہلکی ہوا بھی چلنی شروع ہو گئی چوہا چہل قدمی کرنے لگا ۔ ٹیلٹ وہ شیر کی دم پر چڑھ گیا   اور شیر کی پیٹھ پر جا بیٹھا ۔ بعد ازاں اسے شیر کی گردن کے بال بہت اچھے لگے وہ ان میں گھس گیا اور اچھل کود شروع کر دی اور چوہا اچھل چلا گودا تو شیر کی آنکھ کھل گئی۔ کسی سخت غصہ آیا۔ اس میں چوہے کو اپنے پنجے میں دبوچ لیا۔ اب تو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ لیکن وہ تھا بڑا اعزاز دماغ بولا جنگل کے بادشاہ مجھ سے غلطی ہوگئی  مجھے معاف کردو۔ میں ایک ننھا سا جانور مر کے بھی آپ کی بھوک نہیں مٹا سکتا آپ مجھ پر احسان کریں اور مجھے چھوڑ دے شاید میں آپ  آپ کی کبھی مدد کر سکوں۔

شیر کو غصہ تو بہت تھا لیکن تو نے کچھ اس انداز سے التجا کی اسے رحم آگیا اور اسے چھوڑ دیا۔ کچھ دنوں بعد ایک شکاری اسی جنگل میں آیا ۔ اس نے  شیر کو پکڑنے کے لیے جال لگایا بدقسمت  شیر اس کی جال میں پھنس گیا۔ شیر اچانک افتاد سے بڑا گھبرایا۔ اس نے زور لگاکر جال توڑنے کی بھرپور کوشش کی لیکن اس کی رسی بڑی مضبوط تھی۔ ٹوٹنے کے بجائے اس کے جسم میں پیوست ہو گئی۔ شیر درد کے مارے زور زور سے دھاڑے مارنے لگا۔

اتفاق سے شعر کی آواز جے نے بھی سن لیں وہ سمجھ گیا  شیر کی جان خطرے میں ہے اور آواز کی سمت چل پڑا اور جلد ہی شئیر تک پہنچ گیا اس نے اپنی تیز دانتوں سے جہاز کی رسیوں کو کاٹنا شروع کر دیا جو مسلسل اپنے کام میں لگا رہا تاکہ جاز کے تمام رسّیاں کاٹ دی  دیں یہاں تک کہ شکاری کے  آنے سے پہلے پہلے اس نے کافی رسیا کاٹ  ڈالی۔ شیر ایک جسٹس لگا کر آزاد ہو گیا۔ شیر نےچوہے کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔ چوہا بولا جنگل کے بادشاہ اس پر شکریہ کی کونسی بات ہے  میں نے اپنا فرض ادا کیا کیا احسان کا بدلہ احسان نہیں دونوں نے خوش اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔

احسان کا بدلہ احسان

۔ خود غرض دوست

ایک دفعہ کا سفر کر رہے تھے جب وہاں گئے تو انہوں نے ایک درخت کے نیچے آرام کرنا چاہا۔ ابھی وہاں بیٹھے ہوئے کچھ دیر ہوئی تھی کہ اچانک ایک نظر ان کی پھٹے پرانے کپڑے پر پڑی۔ جو دونوں سے کچھ دور پڑا تھا اس نے قریب پہنچ کر دیکھا تو اشرفیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اچھا تیری ملنے پر وہ خوشی سے چلانے لگا دے یار میں نے اشرفیوں سے بھری ہوئی تھی پائی۔ دوسرے دوستوں نے لگائے تم نے کیا کہا یوں کہو کہ یہ تیری ہم نے پائی ہے اس لئے کہ ہم دونوں جہاں موجود ہیں یہ دونوں کا حق ہے مگر دوسرا نام آنا۔ دونوں میں جھگڑا شروع ہو گیا دوسرا اس بات پر بضد تھا کہ صرف یوں میں اس کا حصہ بھی ہے۔ مگر تیری ملنے والے کو اس دن کہا تھا اسی اثنا میں تھیلی کا مالک بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ تیری کے مالک دور ہی سے پکارا ہے جاؤ تھیلی چور کہاں جاتے ہو۔ تیری کمال کی یہ بات سن کر پھیلی اٹھانے والا بہت برا ہوا کہنے لگا بھائ اب ہم مارے گئے دوسرا دوست بولا تم نے یہ کہا کہ ہم مارے گئے۔ یوکے میں مارا گیا جب تم نے مجھے اس وقت شریک نہیں کیا تو اب مشکل کے وقت میں تمہارا ساتھ کیوں بنوں۔ ڈیلی کے مالک نے لیا سے چھین لی اور اس کے ساتھ ہی اس شخص کو تیری چور سمجھ کر مارنے لگے۔ دوسرا ساتھی قریبی کھڑا تھا اس نے اس کی کوئی مدد نہ کی انہوں نے اس شخص کو مارا مار کر لو آن کر دیا۔

نتیجہ۔:

جو فائدے میں کسی کو شریک نہیں کرتا مصیبت میں بھی ان کا کوئی ساتھی نہیں ہوتا

۔ غرور کا سر نیچا۔

کہتے ہیں کہ کسی ملک میں ایک کامیاب تاجر تھا اسے اپنی دولت پر بڑا غرور تھا وہ بہت ہی سنگین اور کنجوس تھا۔ ایک فقیر کے پاس آیا اور اس نے راہ خدا کچھ مانگا  تاجر حضرات دینے کی بجائے اس کو برا بھلا کہا اور نوکر کو حکم دیا کہ اسے دھکے دے کر باہر نکال دونوں کو اپنے آقا کا حکم بجا لایا۔

وہ فقیر کو یادیں گداگر نہ تھا بلکہ محنت مزدوری سے اپنا اور بال بچوں کا پیٹ پالنا تھا۔ مگر وہ بد قسمتی سے بیمار پڑ گئے اس کی بیماری پر گھر کا تمام اساتذہ ختم ہوگئی اور قیمتی چیز بک  گی۔ تو نوبت فاقوں تک پہنچی اتنے عرصے میں اس شخص کو کچھ افاقہ ہو چکا تھا اور چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تھا۔ لیکن وہ اتنا کمزور ہوتا تھا کہ محنت مزدوری نہیں کرسکتا اور بیچارا اس تاجر کے گھر گیا تھا۔ تاجر کے اس ناروا سلوک سے اس شخص کو بھی عزت نہ ہو اس نے سوچا کہ نا وہ حضرات مانگتا اور نہ اس ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب بہتر یہی ہے کہ جوں توں کر کے دن کاٹے جائیں اور کسی سے رات نہ منگ جائے خدا نے اس کے نیک آدمی برکت دیں اور بہت جلدی کام کرنے کے قابل ہوں گے۔

دن رات محنت کرنے سے اس کی حالت اس قدر گئی اور ایک چھوٹے سے خوبصورت گھر میں رہنے لگا۔  ایک فقیر نے اس کے دروازے پر صدا دی اور وہ شخص خود باہر آیا لیکن فقیر کی صورت دیکھتے ہی حیرت میں ڈوب گیا۔  کیونکہ یہ وہی مالدار تھا جس نے کبھی دھکے دے کر اسے اپنے گھر سے نکل آیا تھا۔  طاہر کی خاص حال دیکھ کر اسے اس کے آنسو پڑ گیا ادھر فقیر نے بھی اسے پہچان لیا تھا۔ اور شرم کے مارے اب آپ ہو رہا تھا اس حالت میں اس کے منہ سے صرف اتنا نکلا اس کا بھائی مجھے معاف کردو۔ خدا کو یہی منظور تھا آج میرا غرور ٹوٹ گیا یہ سنتے ہی وہ شخص آگے بڑھا اور تاجر فقیر کو گلے لگایا۔ اور پھر کہا تم اس کا غم نہ کرو جو خدا کی مرضی تھی اب حوصلہ رکھو۔ میں ایک بھائی کی طرح تمہاری ہر طرح کی مدد کروں گا۔

نتیجہ۔:

غرور ہمیشہ ذلیل ہوتا ہے۔

۔ سچ میں برکت ہے۔

ایک دفعہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی تحصیل علم کے لئے ایک قافلے کے ہمراہ داد روانہ ہوئے۔ ان کی والدہ نے آزاد را کیلئے کچھ دینار کمیض کے اندر سیدھی ہے اور زید کی بیٹ سچ بولنا۔ کافی عرصہ ہو گیا راستے میں ایک مقام پر ڈاکوؤں نے قافلے پر حملہ کر دیا۔  کابلی والوں نے مقابلہ کیا کیوں کہ ڈاکو کی تعداد زیادہ تھی اس لیے قافلے والے شکست کھا گئے۔ ڈاکو نے ان کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا ایک ڈاکو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے پاس آیا اور کہا لڑکے تمہارے پاس کیا ہے آپ نے جواب دیا کہ میرے پاس چالیس دینار ہے جو میری والدہ نے سفر پر روانہ ہوتے وقت میری کمی سی دیے۔ ڈاکو نے آپ کی بات پر اعتماد نہ دیا اس نے قمیض کو  ٹول کر دیکھا تو اس میں واقعی جنار موجود ہے ڈاکو بہت حیران ہوا اور آپ   کو پکڑ کر اپنے سردار کے پاس لے گیا اور سارا ماجرا سنایا۔ سردار نے آپ سے کہا لڑکے دونوں عمواس بول کر اپنی رقم کمائیں۔ اگر جھوٹ بول دیتا تو کسی کو شکایت بھی نہ ہوتا تمہارے پاس پیسے اس قدر رقم ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی نے فرمایا میری والدہ نے سفر پر روانہ ہوتے وقت مجھے نصیحت کی تھی۔ بیٹا ہمیشہ سچ بولنا میں جھوٹ بول کر اپنی والدہ کے حکم کے خلاف ورزی کیوں کرتا۔ آپ کا جواب سن کر سدا کے دل پر چوٹ لگی اس نے سوچا کہ ایک کمسن بچہ اپنی والدہ کی نصیحت کا اس قدر فرمابردار ہے۔ کہ اس نے دنوں کے لٹ جانے کی بھی پرواہ  نہ کی اور میں کتا کتنا بد نصیب ہوں کہ اپنے خدا کی نافرمانی کرتا ہوں سردار نے اسی وقت سچے دل سے توبہ کی قافلے والوں کو لوٹا ہوا تمام سامان واپس کر دیا اور اپنے تمام ساتھیوں سے میں نے اسلام قبول کرلیا اور ہمیشہ کے لئے اپنے قابل  نفرت پیشہ کو ترک کرکے یاد الہی میں بخش زندگی بسر کی۔

نتیجہ۔۔:

سچ میں واقعی بڑی برکت ہے کسی چیز میں عیب نکالنا آسان ہے مگر اسے بہتر بنا کر دکھانا مشکل ہے۔

۔ لالچ بری بلا ہے  ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک رئیس نے اپنے عزیزوں کو آپ نے دعوت پر بلایا۔  اس  رئیس کا ایک پالتو کتا تھا۔ موقع غنیمت جان کر اس نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ آج میرے مالک اپنے دوستوں کی دعوت کر رہا ہے۔ اس  لئے ہمارے ہاں بڑے مزیدار کھانے تیار ہو رہے ہیں۔ آجا تو میرے ساتھ کھانا کھاؤ تو بڑا اچھا ہو گا لذیذ کھانوں کا ذکر سن کر کتے کے منہ میں پانی بھر آیا ۔ شام کو ٹھیک وقت پر اپنے دوست کے یہاں پہنچا دعوت کی شاندار تصویریں دیکھ کر وہ پھولے نہ سمایا تھا  ۔ رنگ  بن گانوں کی خوشبو نے اسے مسترد کر دیا۔ بار بار زبان چاہتا تھا اور دل ہی دل میں کہنے لگا اچھا ہوا جو میں یہاں آگیا۔ بھلا مجھے ایسا موقع کہاں نصیب ہوگا میں آج اتنا ڈٹ کر کھاؤ گا کہ کل تک کافی ہوگا۔ وہ بھی یہ سوچ رہا تھا کہ غلط تھی نے اسے پکڑ کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ اور دھڑام سے نیچے گرا اور کہیں کہیں  لنگڑاتا لڑکا آتا ہوا بھاگ گیا  ۔ دوسرے کو تو اس کی آواز سن کر جمع ہوئے اور اس سے پوچھنے لگے کہ تم نے کس کس چیز پر ہاتھ مارا۔ دعوت میں تو بڑا لطف آ رہا ہوگا اس نے جواب دیا ارے بھائی کیا بتاؤں۔ میں تو اتنی شراب پی گیا تھا کہ مجھے ہوش ہی نہیں رہا۔ اور مجھے اس کی خبر نہیں کہ میں وہاں سے یہاں تک کیسے پہنچا۔

نتیجہ۔:

سچ ہے کہ اگر وہ کتا اس طرح لالچ نہ کرتا تو اس کی یوں درگت نہ بنتی

۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔

ایک کا گرمیوں کے موسم میں بہت پیاسا تھا اس نے پانی بہت تلاش کیا مگر اسے پانی کہیں بھی نہ ملا۔ آخر کار وہ ایک باغ میں پہنچا وہاں اس نے پانی کا ایک کپڑا دیکھا تھا بہت خوش ہوا اور گھڑے کے منہ پر بیٹھ گیا۔ اور اندر جا کا پانی صرف گھوڑے کے پی کے میں تھا کوئی کام نہیں تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ کا بہت مایوس ہوا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری وہ دوڑا اس نے کچھ دور  کنکریوں کا ایک  ڈہیر دیکھا۔ اس نے کنگری اٹھائیں اور لا کر گھڑے میں ڈال دی۔ دیکھا کہ پانی کی سطح کچھ اونچی ہوئی اس طرح اس میں لگن پیدا ہوگی اور کنیال اور گلے میں ڈالتا رہا۔ آخر اس کی محنت رنگ لائی اور پانی اتنا اونچا ہو گیا کو آسانی کے ساتھ پانی پی سکتا تھا۔ اس نے جی بھر پانی پیا خدا کا شکر ادا کیا۔

نتیجہ ۔۔ضرور اجاد کی ماں ہے ۔

۔ اتفاق میں برکت ہے۔

ایک دفعہ کا ایک شکاری جال لے کر جنگل کی طرف جا نکلا۔ جنگل میں سیکڑوں جنگلی کبوتر گہورو کرتے تھے ادھر ادھر اڑ رہے تھے۔ شکاری نے اسی جگہ جال بچھا دیا اور خود دور جا کر کسی اور شکار کی تلاش کرنے لگا۔ شکاری کو وہاں سے ہٹا سے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ بہت سے کبوتر جال میں پھنس گیا۔ ہر کبوتر فار مردان آزاد ہونے کی کوشش کرنے لگا مگر بے سود۔ ان کبوتروں میں ایک بوڑھا کبوتر نے کہا بھائیو میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو ہم سب شکاری کیا تم سے آزاد ہو سکتے ہیں۔ بوڑھے کبوتر کی بات سن کر سب نے اس کی طرف توجہ دی اور کہا کہ وہ ترتیب کیا ہے جلدی بتاؤ۔ ورنہ شکاری یہاں پہنچ کر ہم سب کو پکڑے گا بوڑھے کبوتر نے کہا بھائیو اس طرح فردن فردن زور لگانے سے ہم کہیں آزاد نہ ہوں گے۔ ہاں اگر ہم سب مل کر زور لگایا تو اس جال کو بھی لے آنا سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو شکاری کبھی بھی حاصل نہیں کر سکے گا۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھی کہ نہیں شکاری دور سے آتا دکھائی دیا۔ شکاری جال میں پھنسے ہوئے کبوتروں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ کبوتروں نے آزاد ہونے کی ٹھان لی شکاری کو دیکھتے ہیں سب نے مل کر زور لگایا اور جال سمیت اڑ گئے۔ شکاری حیران اور پریشان جال کو اڑتا ہوا دیکھتا رہا مگر بے بس ہونے کی صورت میں کچھ نہ کر پایا۔ کیوں کہ جب فردا فردا طاقت اکٹھی ہو جائے تو بڑی بڑی چٹان سے ٹکرا  لی جا سکتی ہے۔ یہ تو صرف ایک شکاری تھا تو بے بسی کی حالت میں آسمان کی طرف کو  کبوترروں کو جال  جال سمیت اڑتا اڑتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ کسی نے سچ کہا کہ

نتیجہ۔؛ اتفاق میں برکت ہے

۔ لڑکے کی بہادری۔

خاکہ۔۔۔

ایک لڑکا دے جا کے کنارے لگائے چراتا ہے۔۔۔۔ ریل کے پل کو آگ لگ جاتی ہے۔۔۔۔ لڑکا سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔۔۔۔ دوسری طرف گاڑی آتی ہے۔۔۔۔ لڑکا بازو پھیلا کر گاڑی کی طرف دوڑتا ہے۔۔۔۔ گاڑی سے ٹکرا کر جان دے دیتا ہے۔۔۔۔ گاڑی پر آ کر رک جاتی ہے۔۔۔۔ سب لوگ لڑکی کی بہادری کی تعریف کرتے ہیں۔۔۔ نتیجہ۔۔۔۔

مکمل کہانی۔۔۔۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکا دریا کے کنارے گائیے چراتا تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ وہ گھاس پر لیٹ گیا اس کی نظر ریل کے پل کی طرف پڑ گئی۔ پل لکڑی کا بنا ہوا تھا پل کو آگ لگی ہوئی تھی۔ لڑکا گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا اس نے سوچا کہ کسی طرح آگ بجھائی جائے۔

ابھی وہ سوچ رہا تھا کہ اس نے ریل کے انجن کی سیٹی کی آواز سنی۔ اب تو وہ اور بھی گھبرا اس نے سوچا گاڑی پل سے گزرے گی۔ اور دریا میں گر گئی کتنا نقصان ہوگا۔اسے  اور کج نہ  سوجا بازو اٹھا کر ریلوے لائن کے بیچوں بیچ گاڑی کی طرف بھاگنے لگا۔  انجن ڈرائیور نے اسے دیکھ لیا اس نے بریک لگائی۔ گاڑی تو پل کے پاس آ کر رک گئی لیکن لڑکا اس کی لپیٹ میں آ کر  مر گیا۔ لوگ نیچے اتر آئے۔ انہوں نے جلتا  ہوا پل دیکھا اور بات سمجھ گئے۔ لڑکے نے اپنی جان دے کر گاڑی کو دریا میں گرنے سے بچایا۔ سب لوگوں نے اس کی بہادری کی تعریف کی۔

نتیجہ ۔:دوسروں کی جان بچانے کے لیے اپنی جان دینے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔

۔ خوشامد بری بلا ہے۔

خاکہ۔۔:

ایک کوے کو پنیر  ی کا ٹکڑا ملا۔۔۔۔ لومڑی ادھر آنکلی۔۔۔جی للچایا۔۔۔۔کوے کی تعریف کرنے لگی۔۔۔ تمہاری آواز بہت اچھی ہے۔۔۔۔ گانے کی فرمائش کی، کوے نے گانے گانے کے لئے منہ کھولا۔۔۔۔ پنیر کا ٹکڑا نیچے گرا۔۔۔۔ لومڑی اٹھا کر چل۔۔۔۔ نتیجہ۔۔۔:

مکمل کہانی

۔: ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک کوے کو کہیں سے پنیر کا ٹکڑا ملا۔ کوااسے چونچ میں دبا کر اڑ گیا وہ ایک جنگل میں پہنچا اور ایک درخت پر بیٹھا۔

کوا  پنیرکھانے کے متعلق سوچ رہا تھا کہ ایک لومڑی وہاں آ گئی۔ لومڑی کو بہت بھوک لگی تھی۔ اس نے کوے کی چونچ میں پنیر کا ٹکڑا دیکھا تو اسے حاصل کرنے کی ترکیب سوچنے لگی۔ آخر ایک ترکیب اس کے دماغ میں آ ہی گئی وہ درخت کے نیچے پہنچی۔ اور کوے کی خوشامد شروع کردی لومڑی نے کوے کو مخاطب کرکے کہا میاں کوئی تم بہت خوبصورت ہو۔ تمہارے سیاہ پر بہت بڑے خوبصورت اور چمک دار ہیں۔ تمہاری آواز بڑی دلکش ہے تمہارے بڑی مہربانی ہوگی اگر تم مجھے ایک سریلا گیت سناؤں۔

کو ااپنی تعریف سن کر پھولا نہ سمایا اس نے چونچ کھولی اور کا ئیں کائیں کرنے لگا۔

جونہی اس نے منہ کھولا پنیر کا ٹکڑا منہ سے زمین پر گر پڑا۔ لومڑی نے جھوٹ کا ٹکڑا اٹھا لیا اور کھا گئی۔ جانے سے پہلے اس نے کوے کو نصیحت کی۔” میاں قوالی خوشامدیوں کی چکنی چپڑی باتوں سے بچنا،، کو اپنی نادانی پر افسوس کر تار ہ گیا۔

نتیجہ۔۔: خوشامد بری بلا ہے

Shaheen Forces Academy

Subscribe our YouTube Channel Here

Shaheen Forces

Install our Mobile Application Here

Subscribe YouTube Channels

For more notes Click Here

 Click Here for practice online tests 
 Click Here  
for notes of the other subjects
Click Here f
or checking required Weight  & Height

Click Here for Free Tests & Guidance about ISSB

Click Here to Follow up for Current Jobs & more Notes 

Latest Posts

Leave a Reply

Scroll to Top