Contents show

Urdu Essays

اُردو مضامین

۔ میرا پسندیدہ مشغلہ۔،،

مشغلہ کیا ہے؟

ماشاءاللہ کا مطلب شغل یقاب ہے ایک ایسا کام جو کوئی آدمی اپنے فارغ وقت میں کرے اور اس سوائے واہ دل کی خوشی اور اطمینان کے کچھ حاصل نہ ہو بے شمار مشاغل ہیں جنہیں لوگ اپنے فارغ وقت نے اپناۓ ہوتے ہیں۔ ٹکٹ جمع کرنا سکے جمع کرنا گھونگے اور سیپیاں جمع کرنا تصویریں جمع کرنا  باغبانی اور قلمی دوستی وغیرہ۔

مشغلے کا فائدہ۔۔۔

ماشاءاللہ کوئی بھی کار چیز نہیں ہے یہ کسی شخص کے فارغ اور فرصت کے وقت کا بہترین مصرف ہے یاد میں اگر فرصت کے وقت دیکھا ہے تو اس سے طرح طرح کے غلط خیالات سوچتے ہیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ ایک بیکار ذہن شیطان کارگاہ ہوتا ہے یعنی اگر انسان بے کار ہے تو اسے بہت سے غلط اور برے خیالات آتے ہیں جینے پر جن پر اگر عمل کر بیٹھے تو بہت نقصان ہوتا ہے اس کا اپنا نقصان اور اس کے ہاتھوں دوسرے کا نقصان پاس کیا یہ بہتر نہیں کہ انسان اپنے آپ کو کس مفید کام میں مصروف رکھیں جس کی وجہ سے وہ نقصان اور تخریب کاری سے بھی بن سکتا ہے اور اس سے بہت سے فائدے بھی حاصل ہو سکتے ہے۔

میرا پسندیدہ مشغلہ۔،،

باغبانی میرا پسندیدہ مشغلہ ہے ہمارا امکان بالکل ہے ایسے ہم نے صرف چھ ماہ قبل تعمیر کرایا یہ کونسا جگہ پر واقع ہے ہم نے 10 مرلے میں مکان بنایا چار مرلے کا لان  یاں سبزہ زار ۔ہے۔ اور  6 مرلے شجرکاری کے لیے چھوڑ دیے ہیں۔ یہ گویا ہمارا باغیچہ ہے اس میں ہم نے عام مالٹا امرود جام اور لیچی کے پیڑ لگائے ہیں۔

باغیچہ کے چاروں طرف پھولوں کی کیاری ہے اس میں مستقل پھول دار اور پودوں مثلا گلاب چمبیلی موتیا مروا سدابہار اور دوسرے پودوں کے علاوہ موسمی پھولوں کے پودے بھی لگائے ہوتے ہیں۔

میں چھٹی کے بعد روزانہ اپنے باغیچے میں جاتا ہوں میرے پاس خطباء اور کسی ہے میں گھر پے کے ساتھ پودوں کی طلائی کرتا ہوں کیاری میں سے بیکار پتے اور گھاس پھوس اکھاڑ پھینکتا ہوں مٹی میں مناسب خادم لاتا ہوں اور پودوں کو مناسب مقدار میں پانی دیتا ہوں۔

 

جب بہار کا موسم تو تمام پودوں پر رنگ برنگے خوبصورت اور خوش نما پھول کھلتے ہیں میں اور میرے گھر والے باغیچے میں کرسیاں ڈال کر جاتے ہیں۔ طارق صاحب پودے اور خوبصورت پھولوں کو دیکھتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ چھٹی کے دن میرے بعض دوست مجھ سے ملنے میرے گھر آ جاتے ہیں ان سب بیچ میں بیٹھ جاتے ہیں وہیں بیٹھ کر سکون کا کام کرتے ہیں اس کے بعد چائے پیتے اور خوش گپیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ مجھے دیکھ کر میرے ایک دو دوستوں نے بھی اپنے گھر میں پھولوں کی چھوٹی چھوٹی تیاریاں بنائی ہے اور ان میں مختلف قسم کے پھولوں کے پودے لگائے ہیں۔

۔ سیلاب کی تباہ کاریاں۔

تمہید۔؛

چلا پانی کے زبردست ہریلی کو کہتے ہیں جو عام طور پر شدید بارشوں یا برسات کے دنوں میں اٹھتا ہے۔ اس موقع پر زمین یا درج او کے اندر کتنے زیادہ پانی کی سمائی نہیں ہوسکتی۔ لہذا سیلاب کا یہ پانی دور کرتا ہوا چاروں طرف سے نکلتا ہے۔ اور آبادیوں اور فصلوں کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے اس کی وجہ سے سڑکیں بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ اور پورا کاروبار حیات درہم برہم ہو جاتا ہے۔

ایک سیلاب کا منظر۔۔۔

شاعروں اور ادیبوں کے بقول دریائے راوی عموما سارا سال بہتا ہے۔ لیکن یہ جب دار ہوتا ہے تو بہت تباہ کن ہو جاتا ہے۔ ایسا عموما دو موقع پر ہوتا ہے۔ او لے کے بارشں سے بہت زیادہ ہو۔ دوبارۃ دانستہ طور پر اپنا کوئی بند کر اس دریا میں چھوڑ دیتا جس سے زیادہ دریا تباہ ہو جاتا ہے۔ دریائے راوی میں چند سال قبل ایک خوفناک سیلاب آیا اس سال بارشیں معمول سے زیادہ ہوئی تھی۔ اس لیے راوی میں اونچے درجے کا سیلاب آگیا۔

یہ اگست کا مہینہ تھا ایک صوبہ سائیں سائیں کی زبردست آواز آئی یہ دراصل پانی کے زور سے بہنیں کی آواز دی شہرہ کے لوگ پریشان ہوگئے انہوں نے آبادی سے نکلنا شروع کر دیا وہ چلا رہے تھے لوگوں بھاگو سے لاپتہ تھے جیسے بڑا چلا آ رہا ہے۔ نکل جاؤ سامان کی پرواہ نہ کرو ورنہ مر جاؤ گے۔

افراتفری۔:

لوگ انتہائی پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگنے لگے عورتوں اور بچوں کی پریشانی دیدنی تھی۔ موت کا خوف سب سے بڑا خوف ہوتا ہے عورتیں اور بچے رو رہے تھے کچھ لوگ ان کو سمجھایا کہ رونا دھونا چھوڑ دو اور عقل سے کام لو۔ آخر سب لوگ ایک ٹیلے کی طرف بھاگنے لگے کی لوگ بھاگتے ہوئے گر گئے۔ کی بچے کچھ لے گئے ہار طرف نفسہ نفسی کا عالم تھا آخر لوگ بلند جگہ پر پہنچ گئے۔ لیکن اس اثنا میں پانی کا زبردست ریلا بستی کے اندر داخل ہو چکا تھا۔ پانی انفعنا چاروں طرف پھیل گیا اور چشم زون میں ہر طرف پانی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔۔

تباہی۔:

یہ ایک زبردست سیلاب تھا جس نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا دیہاتی علاقوں میں زیادہ نقصان ہوا فصل تباہ ہو گئی۔ کچے مکان زمین بوس ہو گئی سینکڑوں مویشی مر گیا سینکڑوں پانی کے ریلے میں بہہ گئے۔ بہت سی انسانی جانیں بھی ضائع ہوئی جو چند گھنٹوں پہلے اپنے گھروں میں آرام اور اطمینان کے ساتھ رہ رہے تھے۔ اب تباہ حال ہے خان ما برباد ہوگئے۔

امداداورتعاؤن۔:

لوگوں کو سلاب کی شدید تباہکاری سے بچانے کے لیے فوجی جوانوں نے بہترین خدمات انجام دیں۔ انہوں نے ڈوبتے ہوئے اور پانی کے اندر کھڑے ہو کو نکالا۔ ان سے وہ لوگوں کو کپڑے اور خوراک پہنچائی فوج کے علاوہ قومی رضاکار اور درد دل رکھنے والے شہری بھی سیلاب زدہ مقامات پر پہنچ گئے۔ انہوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر سیلاب زدگان کی مدد کی اور ہر طرف سے تحفظ اور آرام بچایا۔

المیہ۔:

قیامت صغریٰ کے اس موقع پر چند سیاہ فطرت لوگوں نے درندگی کا مظاہرہ کیا انہوں نے بیک خواتین سے زیادہ چھین لیے۔ ان کے قیمتی سامان سے نہیں محروم کر دیا کچھ سنگدل لوگ روٹیاں پکا کر ایسی جگہوں پر لے گئے اور  سلاب زدگان کے ہاتھ روٹی انتہائی مہنگے داموں فروخت کی تین روپے کی روٹی انہوں نے دس دس روپے میں فروخت کی۔

سیلاب زدگان کی امداد اور تعمیر نو۔؛

آخر چند دنوں کے بعد ضلع بہتر گیا لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس ہونے لگے حکومت اور فلاحی اداروں نے دل کھول کر ان کی تعمیر نو میں حصہ لیا اور اس طرح تقریبا دو ماہ کے اندر زندگی معمول پر آگئی۔

 

۔ سگریٹ نوشی کے نقصانات۔

تمباکو نوشی۔ دماغ روشن و دماغ کو پینے کو کہتے ہیں تم خوشی کی بہت سی صورتیں ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔ مسلہ کا سردار ڈیری پائپ اور سگریٹ۔

تمباکونوشی کا آغاز۔۔۔

تمام کون اور خطرناک نعشوں کی طرف پہلا قدم ہے یہ بھی ایک نشہ ہے لیکن بہت ہلکا نشہ ہے۔ تمباکو نوشی کے عادی افراد بعد میں کسر افیون چرس گنجے اور ہیروئن کا شکار ہو جاتے ہیں جو برے نہیں ہیں۔

سگریٹ نوشی۔۔

شروع شروع میں امریکہ کے لوگ بانس کی نالیوں میں بھر کر تم کو پیا کرتے تھے بعد میں انسان جو سہولت پسند کو پینے کے لئے آسان طریقہ دریافت کر لئے۔ موجودہ دور ایک طریقہ کاغذ میں دھماکوں کو بھر کر پینے کا ہے جیسے سگریٹ کہتے ہیں۔ اس کا سائیڈ ایچ کے قریب ہوتا ہے بعض گریٹ اس سے بھی لمبے ہوتے ہیں۔ حقہ پینے کے لئے مشقت کرنی پڑتی ہے تتلیاں مٹی کے ہوکے کے ساتھ ساتھ نیچے پانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے پھر قلم کی ضرورت پڑتی ہے۔ جس میں دھماکوں کو رکھتے ہیں تو ماں کے لیے ابلے کی آگ بہت ضروری ہے ورنہ تم کو کو سلگ نہیں سکتا۔

اگر حقیقت میں پانی نہ ہو تو بھی صحیح طریقے سے موقع نہیں دیا جاسکتا سگریٹ ان سب رکاوٹوں اور مشکلوں سے آزاد ہے۔ سگریٹ کو ماچس کی سب ایک ٹیلی درکار ہوتی ہے تیری جلائی اور سگریٹ لگا لیا۔

سگریٹ نوشی کی وبا۔:

سگریٹ نوشی ایک وبا بن گئی ہے وہ تو صرف چند لوگ اپنے گھروں یا دکانوں پر پیتے ہیں  سگریٹ ہارجگہ پر پیا جاتا ہے۔ بوڑھے جوان بچے غرض ہر عمر کے لوگ سگریٹ پیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسکولوں کالجوں یونیورسٹیوں اور دوسرے تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی عام ہے خطہ کے پار کب سیریل گاڑیاں اور اسپتال بھی اس بابا میں محفوظ نہیں ہین۔ بعض لوگ شروع میں فیشن کے طور پر سگریٹ پیتے ہیں بعد میں ان کی عادت بن جاتی ہے جو ساری عمر نہیں چھوٹتی۔

بےکار اور بے فائدہ کام۔۔۔

سگریٹ نوشی ایک بے کار اور بے فائدہ کام ہے اس کا فائدہ کوئی نہیں البتہ نقصان بے شمار ایسے صحت اور دولت دونوں ہار جاتی ہے۔

صحت کی خرابی۔:

سگریٹ نوشی کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہے کہ اس سے صحت خراب ہوتی ہے سگریٹ پینے والے کے منہ سے بدبو آتی ہے اس سے بہت سی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں دل اور پھیپھڑوں کی بیماریاں سگریٹ نوشی سے پیدا ہوتی ہیں۔ دان بدر اور پیلے ہوجاتے ہیں اس سے خون کی کمی کینسر اور دمہ کی بیماری پیدا ہوتی ہے یہ سب بیماریاں تقریبا لا علاج ہیں۔

دولت کی بربادی۔۔۔۔۔

سگریٹ نوشی ارسال اربوں روپے خرچ کیا جاتا ہے اور روپے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اسی صرف پھینک دیا جاتا ہے اور بیماری مولی جاتی ہیں۔

سگریٹ نوشی کی روک تھام۔۔۔۔

سب سے پہلے یہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ تمام قوموں کاشت کو ممنوع قرار دے تم خود سے بننے والی مصنوعات پر مکمل پابندی لگائے اور ان چیزوں کے استعمال پر سخت سزائیں مقرر کرے ہمیں بھی اپنے مواظبہ کرنا چاہیے اور پورے کوشش اور خلوص کے ساتھ سگریٹ نوشی سے بچنا چاہیے۔

 

۔ ایک تاریخی مقام کی سیر۔

اہمیت۔:

تاریخی مقامات کی سیر سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے مرد تاریخ کی معلومات میں پیش بہا اضافہ ہوتا ہے۔ یہ مارتے دیکھ کر ہمیں ان کے بنانے والوں کی مہارت اور عظمت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ ہماری ہمارا شاندار ماضی یاد دلاتی ہے ہم جو کچھ تاریخ میں پڑھتے ہیں جب اسے آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو ہمارے حافظے میں محفوظ اور نفس الحجر ہو جاتا ہے۔

سیر کا پروگرام۔؛

ہم چند دوستوں نے مل کر پروگرام بنایا کہ لاہور میں مغلیہ دور کے بعض عمارات کی سیر کی جائے۔  ہم نے اس کے لئے جمع کا دن مقرر کیا ہم اپنے استاد جناب محمد طفیل کے ہمراہ پانچ بجے ویگن میں بیٹھ کر لاہور کے لیے روانہ ہوگئے۔ ہم نے کھانے پینے کی چیزیں اور پھول بھی ساتھ لے گئے تھے ایک گھنٹے میں ہم شاہدرہ موڑ گئے۔ ہم وہاں اتر گئے اور پیدل چار مقبرہ جہانگیر کے صدر دروازے پر پہنچے۔ وہاں سے اندر داخل ہونے کا ٹکٹ خریدا اور آگے مقبرے کے چند عرب امارات اور دلکش منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھے۔ مختلف  رویوں پر سے گزرتے ہم مقبرے کی عمارت تک پہنچ گئے۔ مرزا کے طلسماتی ماحول نے ہم پر ہیبت طاری کردی۔ ہم چند لمحوں کے لیے اپنے حسین ماضی کی خوشگوار یادوں میں کھو کر رہ گئے۔

مغلیہ فن تعمیر کا بہترین نمونہ۔:

ملکہ نورجہاں اور شہنشاہ جہاں کے بنائے ہوئے اس مقبرے کی شان حسین خوبصورت اور عظمت و جلال کو الفاظ پیش کرنا ممکن نہیں۔ سنگ مرمر کا بنا ہوا ہسپتالوں مزار سنگ سرخ کے بنے ہوئے ایک فٹ اونچے مربع چبوترے پر واقع ہے۔ جس پر قیمتی پتھروں سے بنے ہوئے مختلف قسم کے بیل بوٹے بنے ہوئے ہیں۔ قبر کے تعویذ کے دائیں اور بائیں جانب اللہ تعالی کے 99 نام کندہ ہیں۔ مقبرے کے اندر کا فرق نہایت ملائم اور چکنا ہے مغل فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔

عظیم الشان مینار۔۔:

اس عظیم الشان مقبرہ کے اوپر جانے کے لیے چاروں طرف سرخ پتھر کے زیب بنے ہوئے ہیں چاروں کونوں پر چار برج ہیں اور ہر برج پر   ایک مینار ہے۔

یہ عجیب بات ہے کہ بچا ہیں مسجد کے مینار پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو جہانگیر کے مقبرے کے تین مینار ہی دکھائی دیتے ہیں۔ چوتھا مینار دکھائی نہیں دیتا۔ اور مقبرے کی سیمینار سے بچائیں مسجد کے میناروں کا نظارہ کریں تو بھی مسجد کی صفتیں منارہی دکھائی دیتے ہیں جو نظر نہیں آتا۔

مقبرہ آصف جاہ۔:

آصف جا ملکہ نور جہاں کا بھائی تھا اس کا مقبرہ جہانگیر کے مقبرے کے قریب ہی ہے۔ آصف جا کی بیٹی ممتاز محل شاہ جہاں کی تھی بیٹی تھی اسے جا کا مقبرہ شاہ جہاں نے بنوایا تھا۔ یہ مقبرہ بھی بہت عالی شان تھا اس کے چاروں طرف والے تھے اب یہ مقبرہ خستہ حالی کا شکار ہوگیا اور اسے دیکھ کر بے ساختہ غالب کا یہ مصرع لبوں پہ آ جاتا ہے۔ دیکھے مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔

ملکہ نورجہاں کا مزار۔۔۔

اپنا مقبرہ ملکہ نورجہاں نے خود بنوایا تھا یہ نہایت سادہ ہے اور قبر کی لو پر ملکہ کا اپنا یہ فارسی کا شہر کندہ ہے۔

بر مزار ما غریباں نے چراغے نے گلے

نے پر پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے

اس مزار کا ماحول بہت اداس ہے یہ ملک تھی جہانگیر کے دل پر راج کرتی ہوں جس کے بارے میں علامہ شبلی نعمانی نے کہا تھا۔

اس کی پیشانی نازک پہ جو پڑتی تھی گرہ

جا کے بن جاتی تھی اور راہ حکومت پر شکن۔

لیکن آج اس کا مقبرہ اداسی اور عبرت کی مکمل تصویر صرف قبر سنگ مرمر کی بنی ہوئی ہے باقی سارے مقبرے کی عمارت بہت سادہ ہے۔

ہم نے مناسب سمجھا کہ آج صرف اسی قدر کافی ہے بھوک لگ گئی تھی ہم سب بیٹھ گئے اور کھانا کھایا۔ اس کے بعد پھل نوش جان کیے اور ایک ٹانگے پر بیٹھ کر بچائیں مسجد لاہور پہنچ گئے تاکہ جمعہ کی نماز ادا کرسکیں

 

۔ ٹیلی ویژن کے فوائد اور نقصانات۔

تعارف۔

ٹیلی ویژن جیسے عام طور پر ٹی وی کہتے ہیں۔  انگریزی کے دو الفاظ ٹیلی اور ویژن سے مل کر بنا ہے۔ ٹیلی کا معنی ہے دور کا اور ویژن کا معنی ہے نظارا یعنی دور کا نظارہ یہ موجود دور کی ایک عظیم ایجاد ہے جسے سائنس کا حیرت انگیز معجزہ کہا جاتا ہے اس کے موجد کا نام لوہے کی ہیڈ جو سکاٹ لینڈ کا رہنے والا تھا۔

ٹیلی ویژن کیا ہے۔

یہ ایک جام جہاں نما ہے اس کے ذریعہ ہم گھر بیٹھے نہ صرف دنیا بھر کی خبریں سن سکتے ہیں بلکہ اپنے

آس پاس ہونے والے واقعات کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے  ہیں

ٹیلی ویژن کی یہی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ سے ایسے ریڈیو پر برتری حاصل ہے کسی جگہ کوئی علمی ادا بھی تقریب ہو رہی ہو کوئی مذہبی کانفرنس ہو کوئی مشاعرہ ہو رہا ہوں یا کھیلوں کا مقابلہ ہو کوئی  میلہ ہو یا کوئی نمائش ٹی وی کا بٹن دبائے اور اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیجئے

ٹی وی ہماری ضرورت بن گیا ہے۔،،

ٹی وی اب لوگوں کی ضروریات زندگی میں داخل ہوگیا ہے۔ آپ ملک کے اندر کہیں بھی چلے جائیں جہاں بجلی ہوگی آپ کو ٹی وی ضرور دکھائی دے گا  ۔ شام ہوتے ہی چھوٹے بڑے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے اور اس کے رنگا رنگ میوزیکل اور تفریحی پروگراموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں ان کی معلومات دوسرے لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔

سب سے موثر  ذریعہ ابلاغ۔،،،

ٹی وی دور حاضر کا سب سے زیادہ موثر ذریعہ ابلاغ ہے۔ اس نے دنیا بھر کے لوگوں کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا اس کے دلچسپ پروگراموں سے پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگ یکساں طور پر فائدہ حاصل کرتے ہیں یہ ایک بہترین ذریعہ تعلیم ہے لاہور ٹی وی سے بہت اچھے پروگرام نشر ہوتے ہیں۔

ایک پروگرام عربی زبان سکھانے کا ہے دوسرا پروگرام تاریخ اسلام کا ایک پروگرام اسلامی تعلیمات کا ان پروگراموں کے ذریعے ہم عربی زبان اور اپنے پیارے دین اسلام کے بارے میں نہایت گراں قدر معلومات حاصل ہوتی ہے۔

بہترین ذریعہ تعلیم۔،،

ٹی وی کے ذریعے مختلف بیماریوں کے اسباب اور ان کا علاج بتاتے جاتے ہیں۔ قانونی مشورے دیے جاتے ہیں سائنس کی جدید ایجادات ٹیکنالوجی صنعت رفتہ دے سکے لوگوں کی معاشرتی اور تمدنی حالات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔

ٹیلی ویژن کے نقصانات۔،،

یہاں ہمارے نوجوان ٹی وی کے اصطلاحی اور معلومات پروگراموں سے فیض یاب ہو رہے ہیں وہی قتل مرڈر تشدد اور بے حیائی کا سبب بھی حاصل کر رہے ہیں ہمارے ملک میں تعلیم بہت کم ہے نتیجہ یہ ہے کہ لوگ انھیں ٹی وی کے پیش کردہ باز پروگرام اور ڈراموں کا منفی اثر قبول کر رہا ہے۔ چوری ڈکیتی اغوا رشوت اور بے راہ روی عام ہوگئی ہے۔ نوجوان 70 بے مہار ہو گئے وہ والدین کی نصیحت اور مفید ہدایتوں کو دیوانے کی بڑ خیال کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے زندگی کی راہیں متعین کرتے ہیں۔

یہ ایک نہایت خطرناک صورتحال اس پر ارباب اقتدار کو فوری توجہ دینی چاہیے اور اس کا سدباب کرنا چاہیے بصورت دیگر ہم ٹی وی سے اتنا کچھ حاصل نہیں ہو گا جتنا کہ ہم گنوا بیٹھیں گے۔ یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب ٹی وی کے پردے سے بے حیائی کا مناظر اور مردار کے واقعات بطریق احسن ختم کر ورنہ ہمارا قومی درخت پوری طرح ختم ہو جائے گا۔

، میرا پسندیدہ کھیل،،

تعارف،،

ویسے تو میں ہر کھیل کو پسند کرتا ہوں لیکن حقیقی میرا پسندیدہ ترین کھیل یہ سب سے پہلے ہندوستان میں شروع ہوا تھا اس وقت یہ ساری دنیا میں مقبول ہوگیا ہے ہماری ہاکی کی ٹیم نئی دفع پاکستان کا نام روشن کیا ہے اس لئے پاکستان میں یہ کھیل بہت مقبول ہے۔

کھلاڑی کی تعداد،،

اس کی ٹیموں میں دونوں طرف گیارہ گیارہ کھلاڑی ہوتے دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کی تعداد بائیس ہوتی ہے ہر کھلاڑی کے پاس لکڑی کی  ایک سٹک ہوتی ہے۔

ہاکی گراؤنڈ،،

حاجی کے لیے بالکل ہموار میدان کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ   گیندکے دوڑنے میں رکاوٹ نہ ہو۔ اس کے لئے میدان 300 فٹ لمبا اور 120 فٹ چوڑا ہوتا ہے دونوں طرف آمنے سامنے دو گول ہوتے ہیں جن کے پیچھے جال ہوتا ہے۔ بولو کے آگے ایک نیند ایرانی ڈی ہوتی ہے جو کھلاڑی اس گول میں ہوتا ہے گول کی پر کہتے ہیں۔ اس کے ذمہ گول کی حفاظت ہوتی ہے وہ ہونے سے بچاتا ہے اسے اجازت ہوتی ہے کہ گیند کو روکنے میں اپنے ہاتھ پاؤں کا استعمال کر سکتا ہے۔ ٹیم کے کھلاڑیوں نے کل بیک کہا جاتا ہے ڈی کے باہر گول کیپر کی کو سپورٹ کرتے ہیں فل بیک کھلاڑیوں سے آگے تین کھلاڑی اور ہوتے ہیں جن کو ہاف میں کہا جاتا ہے اور جو گن کے آگے پہنچانتے ہیں ان کو سینئر فارورڈ کہتے ہیں یہ تعداد میں پانچ ہوتے ہیں یوں تو سب کھلاڑی اپنی اپنی جگہ پر اہم ڈیوٹی انجام دیتے ہیں لیکن سینئر لائن والے کھلاڑی گیند کو آگے لے جاتے ہیں۔ اور گول کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ریفری۔؛

میچ کا فیصلہ کرنے کے لئے ایک دن ہوتا ہے جیسے ریفری کہتے ہیں کی نگرانی کرتا ہے اور ان سے ہاکی کی قواعد و ضوابط کے مطابق عمل بھی کرواتا ہے۔ ریفری کو کھیل شروع اور بند کروانے کے عتراض حاصل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی کھلاڑی غلطی کرے تو اس کے لئے بھی فیصلہ کرتا ہے۔ ۔ کھیل کی ہار جیت کا فیصلہ بھی وہی کرتا ہے اس کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی جاسکتی۔ مصنف مزاج کبھی غلط فیصلہ نہیں کرتے اگر وہ جانبداری سے کام لیتا ہے۔ تو اس کی شہرت کو نقصان پہنچتا ہے یہ ویسے بھی سپورٹ میں شب کے ماتھے پر بدنما داغ ہوتا ہے اور اکثر غیر جوابداری ہی ہوتے ہیں۔

کھیل کا آغاز۔:

ہاں کیس طرح لکھی جاتی ہے کہ دونوں فریقوں کے فارورڈ ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہو کر پہلے اپنی اسٹیٹ زمین پر ایک دوسرے کو ٹکر مارتے ہیں۔ اس طرح وہ دو تین دفعہ کرتے ہیں کھیل کی زبان میں اسے بجلی کہا جاتا ہے اور اس سے کھیل کا آغاز ہوتا ہے۔

قواعد و ضوابط ۔۔۔

کھیل کے قواعد و ضوابط اس طرح سے ہیں کہ اگر کھیل کے دوران سٹک کندھے سے اوپر اٹھ جائے تو فارغ ہو جاتا ہے جس کے بدلے مخالفین کو ایک ہے مل جاتی ہے۔ گول کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ڈی کی حدود کے اندر سے ہٹ لگائی جائے اور یہ کہ اگر گول میں داخل ہو جائے گا داخل ہو کر گزر جائے تو گول ہو جاتا ہے۔ اگر ایک ڈی کے باہر سے لگائی جائے تو آؤٹ ہو جاتا ہے مگر گول نہیں ہوتا جائے گی ن گور کے اندر ہی اندر داخل ہو جائے۔

ہاں کی بورڈ کے ممبر اگر تعصب اور جانبداری سے بالاتر ہو کر خلوص سے کام کریں تو ملک ٹیم دنیا کی بہترین ٹیم ہوگی۔

ہاکی کے فوائد۔

دوسروں کی طرح آگے کھیلنے کے فائدے بہت ہی کھیلنے کے دوران جسم کی بہت بڑی ہوتی ہے کھیل کے دوران کھلاڑی پورے زور سے دوڑتے ہیں۔ ان کے جسم سے پسینے خراب ہو جاتا ہے اس سے جسم مضبوط اور سمارٹ ہوتا ہے اس کھیل میں خاص طور پر ٹانگوں کی ورزش ہوتی ہے۔ نظم و ضبط قائم رکھنے کی عادت پڑتی ہے اتحاد و اتفاق کا جذبہ پیدا ہوتا ہے انسان اطاعت امیر کا عادی ہو جاتا ہے۔ بین الاقوامی طور پر ملک وقوم کی شہرت کا باعث بھی بنتا ہے۔ دوسرے ملکوں کیساتھ ثقافت سرکار پیدا ہوتے ہیں سپورٹ میں شیطانی کھیل کا صحیح جذبہ پیدا ہوتا ہے جو عملی زندگی میں ایک اچھے شہری کی صلاحیتوں میں ڈال جاتا ہے۔

 

تندرستی ہزار نعمت ہے

تعارف و معفوم۔:

تندرستی بہت بڑی نعمت ہے غریبی مفلسی اور ناداری میں آدمی گزارہ کر لیتا ہے لیکن صحت کی خرابی انسان کو بے بس کر دیتی ہے۔

فلاح الدین و دنیا منحصر ہے تندرستی پر

غرض سو نعمتوں کی ایک نعمت تندرستی ہے

صحت انعام خداوندی۔؛

صحت  اور تندرستی انعام خداوندی ہے۔ صحت مند آدمی اس نعمت سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ غربت اور افلاس کا مقابلہ کرتا ہے۔ تندرستی بہت بڑی دولت ہے۔ صحت مند آدمی محنت اور مزدوری سے اپنا گزر اوقات کا سکتا ہے۔ تندرست آدمی ہر طرح کی محنت کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی اسے تنگ و دستی سے کشادگی دیتا ہے۔ صحت دولت سے نہیں خریدی جاسکتی دولت مند آدمی اگر تندرست نہیں تو اس کی دولت اور کشادگی بےکا رہے۔

بیمار آدمی کا دکھ۔:

بیمار آدمی بہت دکھی ہوتا ہے اور ہار وقت بے زار اور پریشان رہتا ہے۔ اسے دنیا کی کوئی چیز اچھی نہیں لگتی اس کی طبیعت متلون اور چڑھی ہو جاتی ہے۔ عمدہ چیزیں اس کے لئے بے مزہ ہو جاتی ہیں۔

تندرستی کا کائم رکھنا۔۔

تندرستی کا  قائم رکھنے کے لیے اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلنا چاہیے۔ صحت کے لئے سب سے بڑی ضروری چیز مناسب غذا ہے اکثر لوگ بے تحاشہ کھاتے ہیں۔ وہ اتنے موٹے ہو جاتے ہیں کہ اپنا بوجھ اٹھانے سے قاصر رہتے ہیں۔ ہدایت دال سے بڑھ کر کھانا صحت برباد کرنے کا باعث بنتا ہے ارشاد خداوندی ہے۔ کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو۔ علاوہ ازیں غذا کے بارے میں احتیاط برتنی چاہیے کیونکہ بیماری ناقص غذا کھانے سے پیدا ہوتی ہے سادہ اور خالص ہونی چاہیے اچھی صحت کا راز ہے کہ بھوک لگے تو کھا ؤ اور ابھی کچھ بھوک باقی ہو تو کھانے سے ہاتھ کھینچ لو۔

تندرستی اور صفائی کا تعلق۔۔۔

اچھی صحت کے لئے صاف ستھرا رہنا ضروری ہے ہمیں اپنے جسم کی صفائی اور لباس کی پاکیزگی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحول کو صاف ستھرا رکھنا بھی لازم ہے گھر گلی محلے اور اپنے شہر کی صفائی بہت ضروری ہے صحت اور صفائی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم روزانہ اور دانت صاف رکھیں صاف ستھرا لباس پہنتے ہیں اور گرد و غبار سے بچیں۔

صحت کے لیے ورزش بہت ضروری ہے صبح کی سیر کرا کی باغبانی اور سواری صحت کے لیے ضروری ہے۔ یہ سب مشاغل صبح جلدی بیدار ہونے پر منحصر ہیں۔ صبح سویرے اٹھ کر وضو کر کے نماز پڑھی جائے اور پھر سیر کو نکل جانا چاہیے۔ کوئی اور مناسب ورزش کرلی جائے تو وہ بھی بہتر ہے ورنہ کے چاک و چوبند رکھتی ہے۔

تندرستی کا زریں اصول۔۔۔

اچھی صحت اور تندرستی کے لیے رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا ضروری ہے۔

محنت کرنا۔،،

اگر ہم اپنے جسم کے اعضاء کو نااہل آئیں گے تو یہ کمزور ہو جائیں گے پھر یہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہو جائیں گے۔ اس لیے انسان کو محنت کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے دنیا میں جتنے بھی عظیم آدمی ہوتے ہیں ان سب نے دن رات محنت مشقت کی ہے۔ میں نے اس سے انسانی جسم اعتدال پر رہتا ہے کردار کی تشکیل ہوتی ہے اور حسن سیرت پیدا ہوتا ہے۔ دنیا میں کامیاب زندگی بسر کرنے کے لئے انسان کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔ کی ذہین طالبہ کمزور صحت کے بعد محنت نہیں کر سکتے اور تعلیم میں اپنے ہم جماعتوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ان کی صحت مند ساتھی معمولی ذہانت کے باوجود محنت کرکے ان سے آگے نکل جاتے ہیں۔ کمزور صحت کا آدمی نہ اپنے لیے کچھ کر سکتا ہے اور نہ دوسروں کے لئے کام آ سکتا ہے صحت کے بغیر انسان کوئی کام نہیں کر سکتا۔

تندرستی کا استعمال۔:

تندرستی اللہ تعالی کی نعمت ہے جو اس لئے ملتی ہے کہ ہم اسے نیک کاموں میں خرچ کریں رزق حلال کمانے میں صرف کریں ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لئے کوشش کریں اور اپنی قابلیت سنوارنے کی فکر کریں۔ غلط اور گناہ کے کام میں وقت صرف کرنے سے ہمیں سزا ملتی ہے ہم دنیا اور آخرت دونوں میں رو سیا ہو جاتے ہیں۔

اسلام میں تندرستی کی اہمیت۔ ۔۔

اسلام اپنی شعر کی طرف توجہ دینے پر بہت زور دیتا ہے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے۔ مسواک کرنے والوں کو کاٹنے اور جسم کی صفائی پر زور دیا گیا ہے پاکیزگی نصف ایمان ہے اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلمان اپنی صحت پر توجہ دیں تاکہ وہ اپنے فرائض احسن طریقے سے سر انجام دے سکیں۔ ایک تندرست آدمی اپنے لئے اور اپنے اہل و عیال کے لئے رزق حلال کی تگ و دو کر سکتا ہے ایک تندرست آدمی ہیں میدان جنگ میں باطل سے ٹکر لے سکتا ہے۔ لہذا اسلام نے تندرستی قائم کرنے کے لیے اصول مقرر فرمائے ہیں اگر ہم ان اصولوں پر کاربند ہیں تو تندرست رہ سکتے ہیں۔ یہ ایسے اصول ہیں جن پر کچھ خرچ نہیں آتا صرف احتیاط کی ضرورت ہے اسلام دین فطرت ہے اور اپنے ماننے والوں کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے۔

 

علم کے فائدے۔

علم کے معنی۔۔

الم کے معنی ہیں جاننا ،آگاہی ، واقفیت،

علم کی خصوصیات۔۔

علم ہی کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر فضیلت دی گئی ہے کس شاعر نے خوب کہا ہے۔

کیوں فرشتوں پر فضیلت دی تھی حضرت آدم علیہ السلام کو ایل مہینے کر دیا تھا آپ کا پہلا گراں

علم کی فضیلت اللہ تعالی کی نظر میں۔۔۔

علم کی بدولت اللہ تعالی نے انسان کو خلافت کے منصب پر فائز کیا ہے۔  علم ہی سے انسان اپنے مقام پر پہنچا ہے آج انسان جو ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے یہ علم ہی کی وجہ سے ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے علم کی اہمیت اور فضیلت کا بے شمار مقامات پر ذکر کیا ہے پہلی وحی کا آغاز ہی اقراء سے ہوا۔ ارشاد بانی،، اپنے پروردگار کے نام سے پڑھ جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھ اور تیرا پروردگار ایسا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ انسان کو وہ علم سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا ایک دوسرے مقام پر فرمایا اللہ تم میں سے ایمان والوں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔،،

ویسے تو سب انسان اللہ تعالی کے بندے ہیں۔ مگر جو لوگ زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں وہ خدا کے زیادہ محبوب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ترجمہ۔،، کہہ دیجیے کیا علم اور جاھل برابر ہو سکتے ہیں۔،،

علم کی فضیلت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں۔،،

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم کی اہمیت اور فضیلت پر بہت زور دیا ہے۔ ارشاد فرمایا،،

علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔

مہددسے لحد تک علم حاصل کرو۔

علم نبیوں کے وراثت ہے۔

علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے۔

ایک عالم شخص شیطان پر ہزار عابد سے سخت تر ہے اور عالم کو عابد پر ایسی فضیلت ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کو تمام تاروں پر۔

عالم کی فضیلت عابد پر ویسی ہی ہے جیسے میری فضیلت امت پر۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ تعالی سے اپنے علم میں اضافے کی دعا کرتے رہتے،، اے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔،،

حضرت علی کا فرمان۔۔،،

جس نے مجھے ایک حرف بھی تعلیم دی اس نے مجھے اپنا غلام بنا دیا۔

علم کی فضیلت بزرگان دین کی نظر میں۔،،

تمام بزرگوں نے علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے ائمہ اربعہ امام غزالی، بازدید بسطامی،  حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ اور بے شمار دوسرے بزرگان دین نے علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔

امام شافعی کا ارشاد،، طالب،علم نفلوں سے افضل ہے۔،،

لارڈ میکالے کا قول۔،،

اگر روئے زمین کی بادشاہت مجھے دیدی جائے اور میرا کتب خانہ مجھ سے لے لیا جائے تو میں ہرگزر  ضامند نہیں ہو سکوں گا۔،،

شرف آدمیت۔،،

اسلام مذہب علم ہے۔ اس کے نزدیک انسان کو دیگر مخلوقات پر شرف علم ہی سے حاصل ہے اور علم ہی کی بنا پر وہ ترقی کی راہوں پر گامزن ہو گا۔ اس لیے وہ اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ علم کی تلاش میں نکلوں اور حکمت کی موتی جہاں کہیں ملین حاصل کرو۔

اللہ تعالی کی نوازش۔،،

یہ ایک حقیقت ہے کہ خداوندکریم نے ہمیشہ حکومت اور سلطنت سے ایسی قوم کو نوازا ہے جو علم و عمل سے دوسری اقوام کے مقابلے میں بہتر تھی۔ اسی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے ملائکہ پر فضیلت لے  گئے۔

تاریخی شہادت۔،،

جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب اہل یونان علمی میدان میں فائق

تھے تو سکندر اعظم نے مشرق و مغرب میں اپنی عظمت کا جھنڈا گاڑا اور دنیا کی کوئی چیز اس کا مقابلہ نہ کر سکی۔ اسی طرح اہل اسلام نے جب اللہ کے فرمان پر عمل پیرا ہو عمل پیرا ہو کر علمی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے  اور قرآن کریم اور احادیث رسول صلی اللہ کو سمجھنے کے لئے درسگاہں قائم کیں اور اپنی یونیورسٹیوں میں علوم عقلی اور فنون عملی کو بطور نصاب پڑھایا تو دنیا کی کوئی قوم ان کا مقابلہ نہ کر سکتی تھی۔ مصر ،بغداد اور قرطبہ کے تعلیمی ادارے اپنی مثال آپ تھے۔ اہل یورپ اپنی جہالت دور کرنے کے لیے سرزمین اندلس کا رخ کرتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کے مسلمانوں نے علمی میدان میں کام چھوڑ دیا۔ تقلید کی جگہ اندھی تقلید اور عمل کی جگہ بد عملی کو اپنایا تو خدا نے انہیں ہر جگہ ان کا غلام بنا دیا جو علم و عمل میں ان سے فائی تھے۔ کہیں پرتگالی اور کا ہی فرانسیسی استحصال کرتے لگے۔ اہل یورپ نے مسلمانوں کی جگہ لے لی اور علمی دنیا میں حیرت انگیز کارنامے انجام دیے۔ وہ علم کی بدولت پوری دنیا پر چھا گئے۔

علم کی نور نور و ہدایت۔،،

ایل نور اور ہدایت کی روشنی ہے۔ علم جہالت کے پردوں کو چاک کر دیتا ہے۔ یہ بے یقینی اور الحاد کے اندھیروں کو مٹا دیتا ہے۔ علم انسان کے اندر نور ایمان اور شمع ایقان  روشن کرتا ہے۔ علم سے نجات ہوتی ہے علم کے آگے مال و دولت کی کچھ بھی حقیقت نہیں ہے علم سے بے بہرہ محتاج ہے۔ ایک آدمی کا علم اور ہزاروں آدمیوں کی عبادت برابر رہی ہو سکتی۔ عالم کا ایک دن جاھل کی تمام عمر سے زیادہ ہے۔ جس آدمی میں علم نہیں وہ آدمی نہیں جانور ہے۔

سعادت، سیادت، عبادت ہے علم

بصیرت ہے ،دولت ہے ،طاقت ہے علم

تکمیل سیرت۔،،

علم انسانی اخلاق و سیرت کو تعمیر کرتا ہے۔ علم انسان کے طرز معاشرت کو  بندبناتا ہے۔ یہ انسان کے اندر عجز و انکساری، رواداری بندگی، ایثار قربانی صبر و تحمل فقرات اور محبت اور اخوت کے بیج بوتا ہے۔ علم دلوں کے اندر خلوص اور محبت، اخلاق اور پاکیزہ جذبہ پیدا کرتا ہے۔ علم دلوں کی کثافت دور کر کے روحانی لطائف پیدا کرتا ہے۔ یہ انسانیت کے جذبے کو جلا بخشتا ہے۔ قوم کی دینی اور فکری رہنمائی کرتا ہے۔ علم انسان کو صرا طِ مستقیم پر چلاتا ہے۔ یہ برائیوں اور گناہوں سے انسان کو بچاتا ہے۔ یہ    ہمہ وقت کا رفیق اور ہمدرد ساتھی ہے۔ خدا اور رسول کی پہچان علم سے ہوتی ہے۔

عظیم سرمایہ۔،،

علم عظیم سرمایہ ہے یہ لازوال دولت ہے۔ علم کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ علم ایسا خزانہ ہے جسے کوئی چرا نہیں سکتا۔ یہ خرچ کرنے سے بڑھتا ہے  گھٹتا نہیں۔ یہ غیر فانی دولت ہے۔ یہ دولت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ علم مال و دولت سے برتر اور بلند مقام رکھتا ہے عالم نبیوں کا  وارث ہوتا ہے مال انسان کو گمراہ کر سکتا ہے لیکن   علم

انسان کو صحیح راستہ دکھاتا ہے۔

عزت کا ذریعہ۔،،

علم انسان کی عزت و قدر میں اضافہ کا موجب بنتا ہے۔ عالم کی ہر جگہ عزت ہوتی ہے وہ ہر جگہ معزز و محترم ہے۔ سکندر اعظم اور ہارون رشید جیسے نامور بادشاہ عالم کے آگے سر خم کئے ہوئے ہیں۔ ارسطو، افلاطون ،لقمان، بقراط، بوعلی سینا، امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ، امام غزالی،  شیخ صدی، مولانا شبلی، حالی، اقبال علم ہی کی وجہ سے آج زندہ تابندہ ہے۔

سائنسی ترقی کا ذریعہ۔،،

سائنسی ترقی علم ہی کی مرہون منت ہے۔ ریڈیو ،ٹی وی،وی سی آر ،ٹیلی فون، دوربین، کمپیوٹر، بجلی، ایکسرے پلانٹ،ایٹمی توانائی وموصلاتی سیارے، ہوائی جہاز ،ریلیز سب کچھ علم ہی کے  ذریعہ سے حاصل ہوا ہے۔ روبوٹ خدمت کے لئے تیار کیے جا رہے ہیں۔ دفاع کے لیے لاکھوں والاتحاد اور خودکار ہتھیار وضع کیے جا چکے  ہیں ۔ علم ہرآن اور ہر گھڑی نئی سے نئی ایجاد کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رہا ہے۔

خفیہ خزانوں کی درافت۔،،

علم انسان کے لیے خفیہ خزانوں کو دریافت کرتا ہے۔ آج علم کی بدولت سطح ارض پر تبدیلیوں کے مشاہدات کیے جارہے ہیں۔بری اوربحری خزانے دریافت کیے جا رہے ہیں۔

 

  پابندی وقت

مفہوم۔:

پابندی وقت کا مطلب ہے ہر کام وقت مقرر پر انجام دینا۔

اہمیت۔۔۔

پابندی وقت حیات انسانی میں بے حد اہمیت کی حامل ہے ۔ کائنات میں پابندی وقت کا بہت زیادہ اعتماد کیا گیاہے۔ جو قومیں انفرادی اور اجتماعی طور پر وقت کی پابندی کرتی ہیں وہ دنیا میں اپنا مقام حاصل کر لیتے ہیں اور جو قومی وقت کی پابندی کا خیال نہیں کرتی زمانہ پاؤں تلے روند دیتا ہے۔

نظام کائنات۔۔۔

نظام کائنات پابندی وقت سے چل رہا ہے سورج وقت پر طلوع ہوتا ہے اور وقت پر غروب ہوتا ہے موسم وقت پر آتے ہیں اور وقت پر ختم ہوتے ہیں چاند کے طلوع و غروب کا وقت مقرر ہے۔ سیاروں کی اپنے مدار میں گردش وقت کی پابندی ہے برف کا پگھلنا۔ باد نسیم کا چلنا پھولوں کا کھلنا مدوجزر کا پیدا ہونا سب وقت کی پابندی کے محتاج ہیں۔

روزمرہ کے مشاہدات۔؛

کسان وقت پر فصل کاشت کرتا ہے اور وقت پر انہیں کاٹتا ہے باغبان پودوں کو وقت پر پانی دیتا ہے اور وقت پر پھل حاصل کرتا ہے۔ دفاتر وقت مقرر پر کھلتے اور بند ہوتے ہیں فیکٹریوں اور کارخانوں کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات مقرر ہیں  ریلیں ٹائم ٹیبل کے مطابق چلتی ہیں۔ تعلیمی ادارے وقت پر کھلتے ہیں اور وقت پر بند ہوتے ہیں امتحانات کے وقت مقرر ہیں اور  ارضیہ زندگی کا  شعبہ پابندی وقت سے منسلک ہے۔ اگر  کسی بھی شعبہ میں وقت کی پابندی سے انحصار کیا جائے تو پورا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ پیر زندگی کے تمام رعنائی حسن اور دلکشی افراد تفری میں بدل جائے گی۔

مذہب اسلام میں وقت کی پابندی۔۔۔

اسلام جو دین فطرت ہے وقت کی پابندی پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے اسلام عملی طور پر پابندی وقت کی تربیت دیتا ہے۔ نظام پانچ گانا ماہ رمضان کے روزے سحری و افطاری حج قربانی عیدی اور تمام دینی فرائض وقت کی پابندی کا پیغام دیتے ہیں۔ اللہ تعالی نے عبادت کا وقت مقرر فرما کر انسان کو خبردار کیا ہے دنیا عارضی ہے انسان خسارے میں ہے اور اللہ کا وعدہ سچا ہے وہ وقت قیامت ضرور آ کر رہے گا۔ دنیا کی زندگی ختم ہونے سے آخرت کی فکر کر لیں وقت کی قدر کریں یہ دوبارہ حاصل نہ ہوگا۔

پابندی وقت ترقی کا موجب۔:

دنیا میں جتنی قومیں بام عروج پر پہنچی ہیں انہوں نے وقت کی پابندی کو شعار بنایا ہے۔  ان کے معمولات وقت مقرر سے شروع ہوتے ہیں برطانیہ جرمنی امریکہ اور فرانس کے ممالک میں وقت کے ایک ایک لمحے کی قدر کی جاتی ہے۔ آج انسان مریخ سے آگے کمندیں ڈال رہا ہے۔ یہ اسی سبب سے ہے کہ انسان نے وقت کی قدر پہچان لی مشہور ضرب المثال الوقت سیف قدمی وقت کاٹنے کی تلوار ہے غلام اور پسماندہ قوموں کے دلوں میں پابندی وقت کا خیال نہیں رہتا۔ وہ وقت کو فضول بحث اور لایعنی باتوں میں ضائع کر دیتے ہیں جب کہ ترقی یافتہ قومیں وقت کے ہار لمبے کو تعمیری کاموں میں صرف کرتی ہیں کہا جاتا ہے کہ جس میں مسلمانوں نے اندلس فتح کیا تو وہاں کے بڑے کار جاگ گھر میں چھوٹی کے مسیحی علماء و فقہاء اس مسئلہ پر بحث کر رہے تھے کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں۔

وقت کی پابندی نہ کرنے کا نقصان۔:

پابندی وقت نہ کرنے سے تمام نظام درہم برہم ہو جاتا ہے کہ ان فصلوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے طالب علم امتحان میں ناکام ہو جاتا ہے کارخانے اور فیکٹریاں دیوالیاں ہو جاتے ہیں ملازم اپنی ملازمین کو کھو بیٹھتے ہیں مسافر گاڑی میں سوار ہو جانے سے رہ جاتے ہیں ایک عجیب بدنظمی پیدا ہوجاتی ہے۔ اجتماعی طور پر قوم تنزل اور پستی میں گر جاتی ہے۔ وقت کی پابندی نہ کرنا غلام اور بیمار کا  شیوا ہے۔ آزاد قوم وقت کو ضائع کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی مشہور فاتحہ چند لمحوں کی تاخیر کے بعد جنگ آگیا۔ سینکڑوں ایسے واقعات موجود ہیں جہاں قومی چند لمحوں کی قدر نہ کرنے سے صدیوں پیچھے چلی گئی۔ یہ تو ایسا جواربھاٹا ہے جو ایک دفعہ عمرہ تو دوبارہ واپس نہیں لایا جاسکتا۔

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں

وقت کی دوستی۔:

وقت کی قدر کی جائے تو انسان کا بڑا دوست ہے۔ یہ حق دوستی ادا کرتا ہے۔ انسان مستعدی اور فرض شناسی سے کام لے تو وقت اسے کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرتا ہے۔ اسے محنت کا بہترین پھل دیتا ہے فتح نصرت کا پیغام دیتا ہے کامیابی اس کے قدم چومتی ہے آج دنیا میں جتنی رونق کو دلکشی ہے یہ وقت کی دوستی ہی تو ہے جو افراد آگے بڑھ کر ان کا دامن تھام لیا ہے۔ وہ طوفان کا رخ موڑ دیتے ہیں قوم کی نوکوں منجدھار سے نکال کر باہر لے آتے ہیں۔ پھر وقت اپنے سینے میں ان کا ناکام ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیتا ہے صدیاں گزر جاتی ہیں مگر قوم کے ہیرو زندہ تابندہ رہتے ہیں۔

وقت کی دشمنی۔:

وقت انسان کا دشمن بھی ہے اگر انسان کا فل سے کام لے اور خواب خرگوش میں پڑا رہے تو وقت کے اپنے پاؤں تلے روند کر گزر جاتا ہے ۔ اس کا نام و نشان مٹا دیتا ہے اس کے ایسے میں سوائے ناکامی کی کچھ نہیں آتا۔

پابندی وقت کا احساس۔:

انسانی زندگی بہت مختصر ہے لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم اس وقت کو غنیمت جانے۔ وقت کی پابندی کریں اور اس مہلت سے بھرپور فائدہ اٹھائیں ایسے کام کر جائیں جو رہتی دنیا تک جاگ رہے ہیں۔

دنیا ۓ دنی کو نقش فانی سمجھو

روداد جہاں کو ایک کہانی سمجھو

‏ پرجب کرو آغاز کوئی کام بڑا

ہر سانس کو عمر جاودانی سمجھو

 

تعلیم نسواں

تمہید۔۔۔

خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کو تعلیم نسواں کہتے ہیں۔ مرد عورت گاڑی کے دو پہیے ہیں معاشرتی زندگی کی گاڑی ان دو پیو پہ ہی چلتی ہے۔

ترجمہ۔:

اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی پرورش کروانا علم سکھاؤ ان مذہب بناؤ کیونکہ علم بہترین سہارا ہے۔

اہمیت و ضرورت۔

علم نور ہے یار قسم کے اندھیرے کی جیب اس کے ذریعے جہاں معرفت الہی حاصل ہوتی ہے۔ وہی دولت دنیا بھی نصیب ہوتی ہے اور زندگی گزارنے کے اصول بھی ہمیں علم ہی سے حاصل ہوتے ہیں۔ یورپی عوام ترقی کے میدان میں اس لیے آگئے ہیں کہ وہاں کے لوگ سو فیصد تعلیم یافتہ غیر مرد و زن کی تخصیص کے۔

ایک کریم یافتہ بیٹی ہے ایک تعلیم یافتہ ماں بنتی ہے اور ایک تعلیم یافتہ معاشرے کو بہترین الا دیتی ہے جو معاشرے کے بہترین اور ذمہ دار افراد بنتے ہیں ملک کو چلاتے ہیں دفاتر کو سنبھالتے ہیں اور لڑکیوں کی شکل میں گھروں کو جنت کا نمونہ بن جاتے ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کی روح سے علم حاصل کرنا مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے اگر ماں تعلیم یافتہ اور سلیقہ شعار ہوگی تو اس کی اولاد بھی مذہب اور شائستہ ہوگی بچے کا زیادہ وقت ماں کی صورت میں گزرتا ہے اور ماں کی عادت تو وہ اتوار کا بچے پر گہرا اثر پڑتا ہے جبکہ جیلما بچے کے اخلاق و اطوار کو تباہ کر دیتی ہے اچھی معلومات اور خوراک سے بڑھ کر بچے کی تعلیم اور تربیت کا خیال رکھتی ہے۔ کسی بری سی سوسائٹی سے بچاتی ہے اور اس کے دماغ میں کو عمدہ خیالات کا مرکز بنتی ہے یہی بچے بڑے ہو کر ملک و قوم کے لئے بس فار ثابت ہوتے ہیں۔

باپ کا دائرہ کار۔:

میری چھوٹی سلطنت جس میں باپ کا رول محافظ اور کمانے والے کا ہے۔ وہ ساری دنیا کی مختلف محاذوں پر اپنے آپ کو خبر کر اہل و عیال کے لیے قوت لا یموت مع یا کرتا ہے۔ گھر کے اندرونی معاملات سے اس کا زیادہ وقت نہیں ہوتا۔

بیوی کی حیثیت۔:

بچوں اور بچیوں کی پڑھائی ان کی تربیت ان کے اعداد و اطوار کی نگرانی ان کی خوراک و لباس کا انتظام اور ان کی کردار پر کڑی نگاہ رکھنا کام ہے۔ وہ ہمارا گھر میں رہتی ہے اور گھر کے متعلق نظم ہے وہ اسٹڈی سلطنت کی وزیر داخلہ اور وزیر اعلی ہے اس کی وجہ سے یہ چھوٹی سلطنت آباد پر رونق ہے ماں  کے پاؤں کے نیچے جنت ہے۔ عورت کے لیے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی از بس ضروری ہے۔

بعض لوگ لڑکیوں کے لئے صرف دینی تعلیم کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔ باقی دنیاوی تعلیم کو وہ ان کے لیے خطرناک نقصان بے خیال کرتے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس میں تعلیم کا قصور نہیں بلکہ تربیت اور غلط ماحول کا قصور ہے۔ لڑکی کو دونوں قسم کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے دنیاوی تعلیم حاصل کر کے  وہ شمع محفل نہ  بن جائے بلکہ سے چراغاں  بننا چاہیے ۔ جاتک فطری صلاحیتوں کا تعلق ہے۔ عورت مرد سے کسی طرح کمتر نہیں اس نے تاریخ میں بڑے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں میں انجام دیے ہیں۔ قدرت نے جو فطری خوبی عورت کو بخشی ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے اسے تعلیم یافتہ بنانا ضروری ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ مردوں اور عورتوں کی تعلیم کا نصاب الگ الگ اور ان کی ضرورتوں کے مطابق ہوں کیونکہ عورت اور مرد کا دائرہ عمل قدرتی طور پر ایک دوسرے سے جدا ہے۔

 

۔ چاندنی رات۔،،

تمہید۔،،

چاندنی رات اللہ تعالی کی عطا کردہ وہ ایک بڑی نعمت ہے۔ چاندنی رات میں ہار شاۓ  دہلی اور  نکھری

ہوتی دکھائی دیتی  ہیں۔ جب انسان اندھیری راتوں کی بے کیفی سے اکتا جاتا ہے تو اس کے دل میں چاندنی کے سہانے اور کیف آفریں منظر سے لطف اندوز ہونے کی حسرت پیدا ہوتی ہے۔  ۔

چاندنی رات کی دلفریبی۔،،

چاند کا لفظ کتنا پیارا ہے۔ جب کوئی عزیز دوست مدت کے بعد ملتا ہے تو اسے دیکھ کر یہ الفاظ زبان پر آ جاتے ہیں۔،، آہا۔،، یہ چاند کے کدہر سے نکل آیا،، آیا،، آپ تو عید کا چاند ہی ہو گئے ہیں۔،،    ماں   اپنے بچوں کو،، ،،میرا چاند ،،کہہ کر پکارتی ہیں۔

چاندنی رات میں باغ کی سیر عجب لطف دیتی ہے۔ چاند کی    دو دہیا روشنی میں گلہائے رنگا رنگ کا حسن اور بھی نکھر آتا ہے۔ درختوں کے پتوں سے جب چاندنی چھن چھن کر آتی ہے تو منظر بڑا ہی دلکش دلفریب ہو جاتا ہے۔ ایسے میں دن بھر کی کلفت اورنج والم دور ہو جاتے ہیں۔ چاندنی رات کا منظر شاعروں اور ادیبوں کے جذبات میں بھی ہلچل پیدا کرتا ہے۔ شاعر کے خیالات  مچلتے ہیں۔ طبیعت میں جولانی پیدا ہوتی ہے۔ عشاق۔ پرچاندنی رات کے سحر کا اثر بیان سے باہر ہے۔ غرض کے ہر آدمی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔  چاندنی رات میں دریا کے کنارے    جا   نکلیں تو ایسا دلفریب اور سحر انگیز منظر نظر آتا ہے طبیعت سیر ہونے کو نہیں آتی اور کس طرح جی نہیں بھرتا۔ چاندنی کا عکس پانی میں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایک سنہری اور سی میں کشتی ہچکولے کھا  رہی ہو  ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور چمکتا ہوا پانی غمگین دلوں کی کلیوں کو بے اختیار کھل جانے پر آمادہ کرتا ہے۔

ماہ شب چودھویں رات کا چاند جب جوبن پر ہوتا ہے اور چہار سو سفید چاندنی چٹکتی ہے تو اس وقت کا منظر دیکھنے والا ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی ماہر کاریگر نے پوری کائنات پر  قلعی   پھیر دی ہے۔

ہر شجر ،ہرحجر اور ہر شے روشنی میں نہائی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ بقول شاعر

تجلی کثافت کو دھونے لگی

مکانوں پہ قلعی سی ہونے لگی

بنے  آئینہ سارے در و دیوار

سفیدی پھری ہر در و بام پر

چاندنی رات سے ہر ذی روح لطف اندوز ہوتا ہے ۔اس سے روحانی مسرت ،آنکھوں کی طروات اور دل کو راحت حاصل ہوتی ہے۔ مدو جزر چاندنی سے پیدا ہوتا ہے جو ساحلی علاقوں کے لیے بہت مفید ہے ۔الغرض  چاندنی ہر شے کو متاثر کرتی ہے۔

چاندنی شب بھر دکھاتی ہے زیاۓ روئے نور

ذرہ ذرہ۔صبح کو کہتا ہے میں ہوں برق طور

۔ ریل کا سفر/ ایک ناقابل فراموش واقعہ۔

سفر کا سبب،،

یوں تو میں نے زندگی میں بہت سے سفر کیے ہیں لیکن 10 کی یاد اب بھی میرے دل میں باقی ہے میں سے کوشش کے باوجود بھی بھلا نہیں سکا اور آج بھی اس سفر کا منظر میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔

واقعہ یوں ہے کہ مڈل کے سامنے سلانا امتحان سے فارغ ہو کر میرا دل چاہا کے راولپنڈی اپنے چچا جان کے ہاں سے ملاقات بھی ہو جائے امتحان سے جو ذہنی تھکن ہوئی ہے وہ بھی دور ہو جائے۔

سفر کا آغاز-:

اگلے دن گھر والوں سے اجازت لے کر میں تانگہ پر سوار ہوکر اسٹیشن جاپہنچا اسٹیشن پر خلاف معمول زیادہ ہی بھیڑ تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد گاڑی آ پہنچی میں نے ایک بلی کی مدد سے سامان ایک ڈبے میں رکھوایا اور پھر خود سوار ہوگیا مجھے دروازے کے قریب ایک خالی سیٹ مل گئی۔

دورانے سفر -:

گاڑی نے سیٹی بجائی اور آہستہ آہستہ رینگنے لگی۔ یہ خیبر میل تھی میں باہر کے مناظر سے لطف اندوز ہونے لگا یہ غروب آفتاب کا وقت تھا۔ رفتہ رفتہ شام کا اندھیرا چھانے لگا اور بجلی کے کام کے جگمگا اٹھے۔ میں نے ڈبے کا جائزہ لیا تین چار آدمی اوپر کی برتھ پر بیٹھے تاش کھیل رہے تھے۔ وہ دو آدمی جگہ پر نہ تھے لیکن ساتھ ہی میرا اٹیچی بھی غائب تھا میں دل پکڑ کر رہ گیا۔

باقی سامان بھی لوٹ گیا،،

جب گاڑی گجرات ہے اسٹیشن پر رکی تو ایک بابو جی ہاتھ میں بیگ لیے ڈبے میں سوار ہوگئے میں اور اخلاق ان کے لیے جگہ بنا دیا انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور نیند آرہی ہے جب جہلم کا اسٹیشن آئے تو مجھے جگہ دینا میں نے سے جگانے کا وعدہ کیا اور سو گئے۔ میں کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا دی رات میں درختوں کے سائے کے پیچھے کی طرف بھاگتے یوں دکھائی دے رہے تھے جیسے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں رات کھنکتی مجھ پر نیند کا غلبہ ہوگا میں سو گیا آنکھ کھلی تو جہلم کا اسٹیشن آچکا تھا میں نے بابو جی کی طرف دیکھا تو وہ غائب تھے۔ جب کافی دیر نہ آئے اور گاڑی بھی چل دیں تو میں نے سامان کی طرف دیکھا آپ کی دفعہ میں پھر لوٹ چکا تھا۔ میرا بستر اور بیک دونوں غائب کے بابوجی یہ دونوں چیزیں لے کر غائب ہو چکے تھے۔

خالی ہاتھ راولپنڈی پہنچا،،

میں اس سفر میں اپنی ہر چیز سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا میں نے بہت شور مچایا بہت تلاش کیا لیکن سامان نام لاہور راولپنڈی اسٹیشن آگے میں بوجھل دل کے ساتھ اسٹیشن پر اتر جاتے تھوڑی ہارے مسافر کی طرف پیدل ہی چل جان کے گھر کی طرف چل پڑا یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس میں آج تک فراموش نہیں کر سکتا۔

نتیجہ-:

عربی کی مشہور مثل ہے۔ جس کا ترجمہ ہے سر سفر  جہنم کا حصہ ہے۔ اس نسل کا مطلب رابطے کی تکلیف سے ظاہر کرتا ہے مجھے راستے میں تکلیف تو کوئی نہ اٹھانی پڑی البتہ ان کا صفایا ہو گیا اور یہ سب بھی ہمیشہ کے لئے مل گیا کے سادہ لوحی کے ساتھ ہر کسی پر اعتبار کرنے کی بجائے ہوشیار رہ کر سفر کرنا چاہیے نہ تو کسی قیمت پر بھی نہیں چاہیے۔۔۔

 

۔ میری پسندیدہ کتاب۔

میری پسندیدہ کتاب-:

دو حاضر علم و ادب کی ترقی کا دور ہے ہر موضوع پر اچھی سے اچھی کتاب مل جاتی ہے ہمارے شاعر اور ادیب اپنی تصانیف کے ذریعہ اردو ادب میں گرانقدر  اضافہ کر رہے ہیں۔ اس لیے اس گراں بہا زخیرے میں سے اپنی پسند کی کسی ایک کتاب کا انتخاب کرنا اتنا آسان کام نہیں تھا ہم اگر کوئی مجھ سے میری پسندیدہ کتاب کے بارے میں سوال کریں تو میں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہوں گا کہ علامہ اقبال کی کتاب بانگ درا میں  مجھے سب سے زیادہ پسند ہیں۔

تعارف۔،، بانگ درا علامہ اقبال کی اردو نظموں کا اولین مجموعہ ہے جو سب سے پہلے ستمبر 1924میں شائع ہوا اور اب لاکھوں کی تعداد میں چھپ چکی ہے یہ کتاب 336 صفات پر مشتمل ہے اور اس کے تین حصے ہیں حصہ اول میں 5 190 تک کی نظمیں ہے۔ آیت 2 مئی 1998 کنز میں شامل ہے اور حصہ سوم میں 1908 کے بعد کا کلام ہے۔

دیباچہ،،

بانگ دار کا دیباچہ سوار شیخ عبدالقادر نے لکھا ہے انہوں نے علامہ اقبال کی شخصیت اور شاعری پر بھرپور روشنی ڈالی ہے اور مفصل تبصرہ کیا ہے یہ دفعہ کاری کو علامہ اقبال کی شاعری اور کلام کو سمجھنے کا موقع دیتا ہے۔

موضوعات،،

بادام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کی نظمیں ایسے موضوعات پر لکھی گئی ہیں جن پر اس سے قبل کئی شاعر نے قلم نہیں اٹھایا تھا۔ بہت ہی نرم قدرتی مناظر کی عکاسی کرتی ہے مسلسل ہمالیہ ابرکوھسار ایک آرزو مانو نمود صبح وغیرہ۔۔

 

بعض میں قومی اور ملی جذبات و احساسات کی آئینہ دار ہے جن میں تصویر درد ترانہ ملی شکوہ جواب شکوہ خطاب جوانان اسلام شمع اور شاعر خضر راہ اور طلوع اسلام وغیرہ۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے بھی بعض میں لکھی گئی ہے جیسے ایک مکڑا اور مکھی پرندے اور جنگجو پہاڑ اور گلہری ایک گائے اور بکری وغیرہ۔

علامہ اقبال ایک فلسفی شاعر ان کی شاعری میں فلسفے کا رنگ بہت نمایاں جس کی وجہ سے بعض اوقات ان کے اشعار کو سمجھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے بانگ درا کی نظمیں نسبتا آسان ہے انہیں ان نظموں کو اکثر اوقات مزے لے لے کر پڑھتا ہوں۔

تبصرہ،،

باندرہ جیسی عظیم کتاب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا میری بساط سے باہر ہے کیونکہ نہ تو میں ادیب ہوں اور نہ ہی شاعر ہوں اس لئے مزید کچھ کہنے کے بجائے سر شیخ عبدالقادر کی وفات پر اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔

یہ دعوے سے کہا جاسکتا ہے کہ اردو میں آج تک اشعار کی کوئی ایسی کتاب موجود نہیں جس میں خلا تک یہ فروع نیو اور مان جاؤ کیوں نہ ہو ایک صدی کے چار حصے کے  بہت اعلیٰ اور تجربہ مشاہدہ کا نچوڑا اور سیر سیاحت کا نتیجہ ہے۔

باز نظموں میں ایک ایک شعر ایک ایک مصرع ایسا ہے کہ اس پر ایک مستقل مضمون لکھا جاسکتا ہے۔

۔ میرا وطن۔

وطن۔:

جس سرزمین میں انسان پیدا ہوتا ہے جس ملک میں انسان زندگی گزارتا ہے اس ملک کا نام وطن ہوتا ہے۔ میرا وطن پاکستان ہے میں اس ملک میں پلا بڑھا یہی تعلیم حاصل کی اسی ملک جوان ہوا اور ملازمت ملنے کے بعد اسی ملک کی خدمت کر رہا ہوں۔

میرا وطن۔:

پاکستان میرا وطن ہے اس بات کا مطالبہ پاکستان کا مطلب لا الہ اللہ کی بنیاد پر بنا ہوا تھا۔ جو میرے ایمان کا جزو ہے میں اس کی آزاد فضا میں سانس لے رہا ہوں۔ یہ میرا وطن لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر حاصل کیا گیا بے شمار بوڑھے بچے عورتیں اور مرد اس کی خاطر ہندوؤں کے ظلم و ستم کا شکار ہوئے۔ مسلمانوں نے ہندوستان میں اپنا کاروبار تجارت زمین جائیداد چھوڑی اور پاکستان آ گئے۔ پاکستان کا مطلب ہے پاک لوگوں کی سرزمین جو بتوں کی پوجا نہیں کرتے بے شمار خدا کو نہیں مانتے غیر اللہ سے اپنی امیدیں وابستہ نہیں رکھتے۔ صرف ایک خدا کو مانتے ہیں اس کی آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں۔

پاکستان کی دولت۔:

پاکستان ہمارا وطن ہے یہ پہاڑوں کا وطن ہے بہادر لوگوں کا وطن ہے یہاں سمندر بہت ہی پار بہت ہی میدان بہت جنگل   بھی ہیں۔ اس وطن کو تاروں نے ہر قسم کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ سب سے بڑی دولت ایمان کی دولت ہے اس کے علاوہ خدا نے ہمارے ملک کو سونا چاندی ہیرے تانبا کو گیس  اور مدنی تیل سے نوازا ہے۔ پاکستانی قوالی ترین دماغ دیا ہے یہ دماغ زندگی کے ہر شعبے میں کارفرما نظر آتا ہے۔ ہماری فوج دنیا کی بہترین افواج میں شمار کی جاتی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ تک اس امراء کا اعتراف کرتے ہیں۔ ہمارے فوجی لفظ خوف اور ناممکن سے واقف نہیں ہیں کارگل اور سیاچن کے علاقے کی مہمات اس کی گواہی۔

صنعت و حرفت۔؛

پاکستان میں ہر قسم کے کارخانے موجود ہیں جو انواع و اقسام کی مصنوعات تیار کرتے ہیں۔ کپڑا جوتے لوہے کی مصنوعات مشینری لکڑی کا بہترین فرنیچر غزوہ تمام ایشیا جہاں تیار ہوتی ہیں جو کسی بڑے ملک میں بنائی جاتی ہیں۔

زراعت۔:

ہمارے کھیت سونا اگتے ہیں پاکستان کی زمین بڑی زرخیز ہے۔ اس زمین میں گندم چاول کپاس گنا دالیں سرسوں وغیرہ خوب پیدا ہوتی ہیں۔ یہ فصل جہاں  ہماری غذائی ضروریات کو پورا کرتی ہیں وہاں ان کی فاضل مقدار بیرون ملک بھی بھیجی جاتی ہے۔ جس سے گرانقدرزر مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔

تعلیم۔؛

میرے پیارے وطن میں تعلیم عام ہے بے شمار یونیورسٹیاں کالج سکول اور دوسرے تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں میں تدریس کے علاوہ تخلیق کا کام بھی ہوتا ہے۔ ہونہار طلبہ کو وظائف دیے جاتے ہیں۔ انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر کے ملکوں میں بھیجا جاتا ہے۔ جان سے وہ علی فنی اور تعلیمی ڈگری لے کر واپس آتے ہیں اور ملک و قوم کی خدمت کرتے ہیں۔

ہمارا فرض

۔؛ پاکستان ہماری مادر وطن ہے۔ مظہر کا معنی اہمیت جو کچھ میسر ہے وہ اسی مادر وطن کے سینے سے ملا ہے۔ ہم اس کا حق ادا نہیں کرسکتے اس نے جو ہمیں دیا۔ کھانے اور پینے کو دیا ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی حفاظت عزت و حرمت اور ان کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کردی۔ حضور پاک صل وسلم کا ارشاد ہے!

حب الوطن من الایمان یعنی وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے

 

والدین کی خدمت

والدین عظیم نعمت ہے۔؛

ماں باپ سی نعمت کوئی دنیا میں نہیں ہے

حاصل ہو یہ  نعمت تو جہاں خلد بریں ہے

دنیا کے تمام مذاہب میں والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری کا تلقین کی گئی ہے لیکن اسلام نے اس پر کسی اور انداز میں زور دیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ!

ترجمہ ۔۔اپنے والدین کی خدمت کرو جب وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بوڑھا ہو جائے۔ تو ان کے آگے ذلت کا بازو جھکادو یعنی اس طرح سر جھکا کر کھڑے ہو جاؤ جیسے نوکر اپنے آقا کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور انہیں اف تک نہ کہو جتنا تو دور کی بات ہے ۔

والدین کا ا ایثار۔۔۔

والدین اپنی اولاد کے لئے ہر قسم کی تکلیف برداشت کرتے ہیں ماں بچے کے آرام کے لئے ساری ساری رات جاگتی ہے۔ بچہ بیمار ہو جائے تو اسے ڈاکٹروں کے پاس لے کر جاتی ہے اور اس وقت تک اسے چین نہیں آتا جب تک بچا تندرست نہ ہو جائے۔

بچے کو کھانا کھلانا نہانہ بلانا جگانا سب ماں کے فرائض میں شامل ہیں۔ ماں بچے کی خوشی سے خوشی اور تکلیف سے غمگین ہو جاتی ہے۔ باپ کو لین اپنے بچوں کی پرورش کے لئے وہ کیا نہیں کرت دن بھر محنت مزدوری کرتا ہے بھاگا پھرتا ہے اور کچھ ایسے ملتا ہے اپنے بچوں کو خوراک پوشاک کی نظر کر دیتا ہے۔ غرض ماں باپ اپنے عیش و آرام کی پرواہ کیے بغیر اولاد کی تمام سہولتوں اور آسائشوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اپنا پیٹ کاٹ دیتے ہیں لیکن اپنے بچوں کو اچھے سے اچھا کھلاتے اور پہناتے ہیں۔ سوز ہے اس اولاد پر اپنے محسنوں کا حق نہ پہچانے اور ان کی خدمت نہ کرے۔

ایک حدیث۔:

ایک مشہور حدیث ہے جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے نیز یہ کہ رب کی رضا بات کی رضا میں ہے۔ اور رب کی نہ خوشی بات کی نا خوشی میں ہے جو شخص اپنے ماں باپ کو خوش کرتا ہے وہ اللہ تعالی کو خوش کرتا ہے۔ اور انہیں ناراض کرتا ہے اللہ تعالی بھی ان سے ناراض ہوتا ہے۔

ماں کی عظمت۔:

حضور صلی اللہ وسلم سے کسی صحابہ نے پوچھا کہ میں سب سے زیادہ کس کی خدمت کرو۔

آپ سلم نے اپنی ماں کی صحابہ کے تین دفعہ پوچھنے پر آپ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہی لفظ دورائے۔ خدا اور رسول خدا کے ان واضح ارشاد کی روشنی میں ہمارا یہ انسانی اخلاقی اور دینی فرض ہے کہ۔ ہم اپنے والدین کی دل و جان سے خدمت کریں ان کا ہر کام خوشدلی سے بجا لائیں اور انہیں کسی وقت بھی ناراض نہ کریں۔

نتیجہ۔:

جو لوگ اپنے والدین کی فرما برداری کرتے ہیں کل وہی اپنی اولاد سے بھی فرمابرداری اور خدمت کی توقع کر سکتے ہیں

سب سے بڑی سعادت ماں باپ کی ہے خدمت

سب سے بڑی عبادت ماں باپ کی خدمت

۔ استاد کا احترام۔۔:

استاد کا درجہ‘:

والدین بچے کی جسمانی پرورش کرتے ہیں جب کہ استاد کے ذمے بچے کی روحانی تربیت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے استاد کی حیثیت اور اہمیت والدین سے کسی طرح کم نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہے۔ کیوں کہ روح کو جسم پر فوقیت حاصل ہے اور استاد کا تعلق روح سے ہے۔

اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو استاد کی اہمیت ایک مقام ارفع و اعلی ہے۔ استاد جی قوم کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے استاد قوم کے نوجوان کو علم و فنون سے آراستہ کرتا ہے اور انہیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ مستقبل میں ملک و قوم کے بہترین ممار ثابت ہو۔

رسولُ اللّٰهﷺ  کا ارشاد!۔:

قرآن مجید میں ارشاد ہے!

ترجمۂ۔۔

پیغمبرﷺ  تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے۔،، اللہ تعالی کی رہنمائی میں رسول اکرم ﷺ ایک استاد کی حیثیت رکھتے ہیں اور صحابہ کرام نے جو کچھ حضور اکرامﷺ سے حاصل کیا اسے دوسروں تک پہنچانے کی ذمہ داری بڑے احسن طریقے سے سر انجام دیں۔

حدیث نبوی۔:

حضورﷺ کا ارشاد ہے۔

ترجمہ بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

حضورﷺ میں استاد کو ایک طالب علموں کے باپ کا رتبہ دیا اور ایک موقع پر فرمایا خوشامد صرف استاد کے لئے جائز ہے۔

حضرت علی کا قول۔:

حضرت علی کا قول ہے کہ جو شخص نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ میرا استاد اور اس کا استاد کا احترام کرتا ہوں۔

امام غزالی کا قول۔:

امام غزالی نے کہا کہ جب تک تم اپنا سب کچھ علم کو نہ دے ڈالو علم تمہیں اپنا کوئی حصہ بھی نہیں دے گا۔

استاد کا رہنما۔:

دنیا کا ہر کام میں نہ طلب ہے اور علم حاصل کرنے کے لیے اگر کوئی بہتر رہنمائی ہے تو وہ بھی اچھا ہے اور استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے طالب علموں کو پوری محنت لگن اور جانفشانی سے پڑھائے۔

استاد کا ادب و احترام۔۔۔۔*

علماء جی اور انکساری کو پسند کرتا ہے۔ اچھے طالب علم استاد کی عزت کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں استاد کا احترام ہوتا ہے۔ اگر کوئی سوال پوچھنا بھی ہو تو ادب اور احترام کے ساتھ پوچھتے ہیں۔ علم کی قدر کرنے والے دنیا میں کبھی ناکام نہیں ہوتے۔

استاد محسن انسانیت۔:

استاد انسانیت کا محسن ہے وہ علم کا حصول آسان بناتا ہے۔ استاد علم کے ذریعے بچوں کو دنیا میں رہنے کے ڈانس کھاتے ہیں اور معاشرے کے فوائد رکن بناتا ہے۔ علم سکھا کر بہترین انسان بناتا ہے۔

معمار قوم۔۔

والدین کے بعد استاد قوم کا معمار ہے۔ وہ اپنی ساری صلاحیتیں اور اپنا سارا علم اپنے شاگردوں کو منتقل کرتا ہے اور سونے کو کندن بنانے کا کام کرتا ہے۔ وہ طالب علم جو کن زین ہوتے ہیں استاد ان کو علم سکھا کر قابل فخر انسان بنا سکتا ہے۔ جو آگے چل کر قوم اور ملک و ملت کے لیے اچھے انسان ثابت ہوسکتے ہیں۔ ذہین طالب علم بچے اچھے استاد سے علم حاصل کر کے قابل تقلید مثال قائم کرتے ہیں۔ ایک مثال ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال کی ہے جس کی شمع العلما مولوی میر حسن جیسے قابل استاد ملے۔

استاد اور معاشرہ۔۔‘:

ایک نیک ایک اچھا استاد یہ اچھا معاشرہ پیدا کر سکتا ہے۔ جس معاشرے کو اچھے استاد ملتے ہو یقیناً وہ بہتر مشورہ ہوگا اس میں مستقبل کے معمار پیدا ہوتے ہیں۔ سینس دان انجینئر ڈاکٹر بنتے ہیں۔ آج کے سائنسی دور میں ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ مقابلہ کر سکیں گے۔

زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب

علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب

کمپیوٹر

حیرت انگیز ایجاد_:

کمپیوٹر ہے تو ایک بے جان مشین مگر اس کی کئی خصوصیات  ایسی  ہیں جو صرف زندہ انسانوں میں ہوتی ہیں_

کمپیوٹر ایسے بے شمار کام کرتا ہے جو ایک آدمی کا ایک گھنٹوں اور کئی دنوں میں کرے  کمپیوٹر چندرابابو میں کر ڈالتا ہے_ یہ اس دور کی حیرت انگیز ایجاد ہے

خصوصیات_:

کمپیوٹر ہے  تو ایک بے جان مشین مگر اس  کئ خصوصیات ایسی ہیں جو صرف زندہ انسانوں میں ہوتی ہے اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے

کہ آپ اس بات چیت  کر سکتے ہیں یہ بات ہماری کسی زبان، اردو انگلش میں نہیں ہوتی بلکہ کمپیوٹر کی اپنی زبان میں ہوتی ہے جو سیکھی جاتی ہے

بات چیت:

اس کا ایک بورڈ ہوتا ہے اس بورڈ پر بہت سے بٹن لگے ہوئے ہوتے ہیں ہر بٹن پر ا یک حرف  ہندسہ لکھا ہے جو بٹن بھی دبایا جائے سامنے سکرین پر وہی حرف لکھا ہوا آجاتا ہے_

بس کمپیوٹر سے بات چیت کا یہی ایک طریقہ ہے ہم ان بٹنوں کمی مدد سے کمپیوٹر کی زبان میں الفاظ لکھتے جاتے ہیں وہ الفاظ کو سمجھتا ہے اور جب ہم کوئی سوال کرتے ہیں تو وہ فورا اس کا جواب دے دیتا ہے

 

یادداشت:

کمپیوٹر کی دوسری بڑی خصوصیات اس کی یاداشت ہیں کمپیوٹر ایک عام آدمی سے بھی زیادہ باتیں یاد ر کھ سکتا ہے کمپیوٹر کی کمپیوٹر کو کوئی  بھی بات صرف ایک بار بتانی پڑتی ہے اور یہ صرف  سیکنڈ ساری باتیں محفوظ کر لیتا ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ سب کچھ کمپیوٹر کو اس کی اپنی زبان  میں یاد کرانا پڑتا ہے کمپیوٹر صرف  تحریریں ہی نہیں  تصویریں نقشے  حسابی سوالات اور ہر طرح کی معلومات بھی اپنے حا فظے  میں ذخیرہ کر لیتا ہے  اور ضرورت پڑنے پر فورابیان کر دیتاہے  نہ ہی آپس میں معلومات گڑ مڑ  ہونے دیتا ہے اس کی حافظے میں جو معلومات آپ کو درکار ہوں آپ جب چاہیں کمپیوٹر کو اس کی زبان میں حکم دیں وہ چند ہی سیکنڈ میں وہ معلومات ویسے کی ویسے آپ کو

فراہم کر دے گا۔ اگر وہ  معلومات تحریر کی شکل میں ہیں تو وہ   تحریر سکرین پر آ جائے گی اگر وہ تصویر کی صورت میں ہی تصویر  بن جائیں گی

مشینی دماغ:۔

کمپیوٹر   دراصل مشینی دماغ ہے بڑے بڑے ادارے اور بستر آپنے حسابات کمپیوٹر کے حافظے میں محفوظ کرتے ہیں جب حسابات کی جانچ پڑتال  کئ کئی دنوں کا کام ہوتا تھا اب وہی کام چند منٹوں میں مکمل ہو جاتا ہے

مقاصد:۔

کمپیوٹر  ایک سےایک مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے

1۔ ہوائی کمپنیاں اپنے ٹکٹوں کی تیاری  ترسیل اور جراءکا کام کمپیوٹر سے لیتی ہے

2۔ ڈاکٹر حضرات مریضوں کی کی پیچیدہ ٹیسٹ کمپیوٹر سے کرتے ہیں اس طریقے سے وقت بھی کم لگتا ہے اور غلطی کا امکان بھی نہیں ہوتا۔

3۔انجینرٔ کل صبح جو بڑی بڑی بلند عمارتیں  پل، ڈیم اور سڑکیں بناتے ہیں وہ ان کے نقشے کمپیوٹر ہی سے پیار کرتے ہیں کمپیوٹر کسی عمارت یا پل غیرہ کی منصبوطی کے بارے میں ھبی مکمل معلومات فراہم کرتا ہے اور اس کو بہتر بنانے کے مفید مشورے بھی دیتا ہے

4۔ برائے کمپیوٹر کی مدد سے اپنے جہاد کی اوران رفتار بلندی اور سمت کے تعین کو کنٹرول کرتے ہیں اور خرابی کی نشاندہی بھی کرتا ہے

5۔   سائنس دان خلاء میں جو راکٹ اور سیارے بھجیتے ہیں ان سب کو کمپیوٹر کی مدد سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور ان سیاروں اور چاند گاڑیوں کی مہیا کی گئ معلومات کو کمپیوٹر میں ہی ریکارڈ کیا جاتا ہے

مشینی لائبریری:۔ کمپیوٹر سائنس  تحقیقیات میں انسانی دماغ کی بہت مدد کرتا ہے جن سائنسی معلومات کو ذخیرہ کرنے کے لیے پوری لائبریری در کار ہوتی ہے وہ ایک چھوٹا سا کمپیوٹر آسانی سے اپنے اندر سمو لیتا ہے اور یہ معلومات مدتوں محفوظ رہتی ہے  نہ نہیں      دمیک لگےنہ موسم کا اثر ہو۔غرض کہ کمپیوٹر آج کےدورکی بہترین ایجاد ہے

۔ نظم و ضبط

تعارف،:

نظم و ضبط سے مراد ہے کہ ہم جو کام بھی کریں وہ سلیقے اور ترتیب سے کریں کام کرنے کے جو اصول ہیں۔ انہئن نہ توڑیں  اور نظم و ضبط کی مثال ایک تسبیح کی سی ہے ۔ ایک دھاگے میں تمام دانے پروئے ہوئے ہوتے ہیں کرتے ہیں۔ ہیں  اگر یہ داغ توڑ دیا جائے تو تمام دانے بکھر جائیں گے اس لیے نظم و ضبط اور انسانوں کو اس لیے سلیقہ  اور ترتیب دیتا ہے۔

نظم و ضبط کو اپنا لینے سے زندگی گزارنے کا سلیقہ ہے۔ اسے زندگی میں رات اور آسانی پیدا ہوتی ہے اگرچہ اس کو بھی کو اپنانے سے شروع میں کچھ وقت کچھ دقت ہو سکتی ہے۔ اور جب ہم اس کے عادی ہوجائیں اور پابندی ہماری عادت بن جائے تو بہت راحت ملتی ہے۔

نظم و ضبط کی اہمیت۔:

نظم و ضبط کے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر ضروری ہے جس تک کوئی فرد نظم کو نہیں اپناتے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مگر جب وہ اس کا عادی ہو جائے تو پھر اسے آسانی اور آرام حاصل ہوگا۔ ہیلو جناب کیا درجہ ہمارے لیے مفید اگر جب نہ رہے تو کوئی کام ڈھنگ سے نہ ہو سکے گا۔

گھر میں نبضط  سے گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے کلاس روم میں نظم و ضبط کے کام ہے بہت آسانیاں کرتا ہے اسی طرح سکول میں نظم و ضبط برقرار رہنے سے سکول کی ترقی اور بہتری کی رفتار بہت تیز ہو جاتی ہے۔ مذہب کی ضرورت اور مقام اور ہر موقع پر پیش آتی رہتی ہے۔ نظم و ضبط سے انسان کی زندگی میں خاص سریکوٹ ہوا جاتا ہے اور اسے کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔

کھیل میں نظم و ضبط ۔:

کھیل کے میدان میں بھی نظم و ضبط بہت ضروری ہے کھیل میں ہار جیت سے زیادہ ہم اہم بات یہ کے ضابطے کی پابندی ہے۔ اگر ان کھیل کے میدان میں ضبط کی پابندی نہ کریں خیر سے جو مقاصد حاصل کرنے ہے وہ حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ اجتماعیت اور نظم کے فقدان سے پھیل میں شکست ہو جاتی ہے جبکہ کلی اور اجتماعی کھیل سے جیت لازمی مقدر بنتی ہے۔

فوجی نظم و ضبط۔؛

فوجی زندگی میں بھی نظم و ضبط کی اہمیت بیان کی متعدد نہیں۔ ایک سپاہی کے لیے نظم و ضبط کو توڑنا انتہائی خطرناک نقصاندہ ہوسکتا ہے اس میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ جنگ احد میں نظم و ضبط کی اخلاقی ورزی مسلمانوں کے لیے نقصان دے ثابت ہوئی اور مسلمان فتح شکست میں بدل گئی۔

کہانی لکھنا۔۔۔

بچوں کو کہانیاں سننے اور سنانے کا بہت شوق ہوتا ہے بچپن میں وادی ماں اور نانی اماں سے کہانیاں سننا بچوں کا معمول رہا اور جب یہ ذرا بڑے ہوئے تو رسالوں اور کتابوں میں لکھی کہانیوں کو بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ بچوں کو جنہوں تو لے لو اور پریوں کی بے مقصد کہانیوں کے فریب میں نہیں آنا چاہیے بلکہ اسلامی طریقے سے انبیاء کرام کے سبق آموز قصے مسلمان سائنسدانوں کے حالات زندگی اور جدید ایجادات وغیرہ پر مشتمل کتب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ بہرحال بچوں کی اس فطری شوق کے پیش نظر انہیں زبان سکھانے میں کہانی سے بڑا کام لیا گیا ہے۔ کے بچوں میں پڑے ہوئے الفاظ محاورات ضرب المثال اور اسلوب بیان کے استعمال کا صحیح لکھا جائے چنانچہ ان میں بھی ایک سوال کہانی لکھنے کے متعلق ضرور دیا جاتا ہے۔ کبھی پانی کا حق دیا جاتا ہے کہ اس سے کہانی لکھیں کہیں کوئی اخلاقی سبق دیا جاتا ہے کہ ثابت کرنے کے لیے کوئی کہانی تحریر کریں اور مقابلے کے امتحانات میں امیدواروں پر تخلیقی صلاحیتوں کو جانچنے اور ان کی  افتاد طبع کا اندازہ لگانے کے لیے

اسلامی تعلیمات۔۔؛

اسلام کی تعلیمات میں مذہب کی بڑی اہمیت حاصل ہے مسلمان دن میں پانچ مرتبہ باجماعت نماز پڑھتے ہیں۔ اور امام کی اتباع میں رکوع اور سجدہ کرتے ہیں اسی طرح سے اطاعت امیر کا حکم بھی نظم و ضبط کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے

ہمیں چاہیے کہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں نظام کو اپنایا اور اس کو اپنا شعار بنائیں گے انشاء اللہ تعالی یقینا ہماری زندگی رہا 

۔ حضرت محمد مصطفیﷺ

کی محمدﷺ   سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں

اللہ تعالی نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہماری تربیت و اصلاح کے لئے بھیجے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام آئے اور آخر میں دنیا کی ہدایت کے لئے تمام انسانوں اور تمام زمانوں کی رہنمائی کے لیے آنحضرتﷺ ا آئے۔ محمد ﷺ    کے بعد کوئی نبی آیا اور نہ آئے گا۔

پیدائش۔:

آپﷺ 12 ربیع الاول بمطابق  22اپریل571کو مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق عرب کے معزز ترین گرانے سے تھا۔ دادا نے آپ کا نام محمد رکھا۔ آپ کے والد ماجد کا نام حضرت عبداللہ اور والدہ ماجدہ کا نام حضرت حمنہ تھا۔ آپ ﷺ  کے والد آپ کی پیدائش سے پہلے وفات پا گئے ۔ آپ کے دادا کا نام حضرت عبداللہ مطلب تھا اور یہ مکئی کے بڑے سرداروں میں سے تھے۔

پرورش۔۔۔

مکہ کے رواج کے مطابق آپ کو پرورش کے لئے ایک دیہات میں بھیج دیا گیا۔ آپ ﷺ  کی پرورش حضرت علی معاویہ نے کی۔ آپ کی وجہ سے ان کا گھر خیروبرکت سے باہر گیا اور آپ پانچ سال تک دیہات میں حضرت علی معاویہ کے پاس رہے۔

بچپن۔۔۔

جب آپ کی عمر چھ سال کی ہوئی تو والدہ کا انتقال ہوگیا اور آپ کے دادا آپ کے سر پرست بنے۔ دادا نے آپ کی پرورش کی لیکن آپ کی عمر آٹھ سال کی ہوئی تو آپ کے دادا بھی وفات پا گئے اور وفات سے پہلے آپ کو چادرت ابوطالب کے سپرد کر گیا۔

آپ کا بچپن ہے ساتھ اس طرح اور باقی تھا آپ نے کبھی کھیل تماشا ہو اور بری باتوں میں حصہ نہیں لیا آپ کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتے اور بچپن سے زیادہ زندگی گزارنے کے عادی تھے۔

جوانی؛

آپ کی جوانی بھی آپ کے بچپن کی طرح نہایت پاکیزہ اور صاف تھی آپ غریبوں کی مدد کرتے تھے اور مشکل میں دوسروں کے کام آتے تھے نیزابازی شمشیر زنی اور سواری سے مفید اور موجودہ کھیلوں میں حصہ لیتے۔

اور صادق اور امین۔۔۔

آپ محض سچ بولتے تھے اور بہت دیانتداری سے لوگوں کی امانتیں ہیں جانبداری سے ان کو واپس پہنچاتے تھ رسولُ اللّٰهﷺ  کی صداقت اور امانت کی وجہ سے مکہ کے لوگ آپ ﷺ  کی اور آمین کہہ کرپکارتے تھے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح۔:

مکہ میں ایک مال دار بیوی رہتی تھی۔ ان کا نام حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ اور وہ تاروں کے لقب سے مشہور تھی۔ انہوں نے جب آپ ﷺ کی امانت و دیانت کے بارے میں سنا تو آپ کو اپنے کاروبار میں شرکت کی دعوت دی اور کہا کہ میرا مال دوسرے شہروں میں بھی جائیں تو دوسروں سے زیادہ نفرت دو گی۔  رسولُ ﷺنے پیشکش قبول کرلی اور ملک شام کی طرح سامان تجارت لے گئے آپ ﷺ  کو اس تجارت میں خوب فائدہ ہوا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا غلام ایسا بھی آپ کے ساتھ تھا اس نے بھی آپ کے کردار اور گفتار کے بے حد ترقی کی حرکتیں جلا نہ اس قدر متاثر ہوئے کہ شادی کا پیغام دے دیا آپ ﷺ نے یہ پیغام قبول کرلیا نکاح کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس برس تھی وہ حضور صلی اللہ کی عمر 25 برس تھی۔

نزول وحی۔؛

اگر ختیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد جب آپ کو مالیت باہر سے بے فکری ہوئی تو آپ نے زیادہ تر وقت اور فکر اور سوچ و بچار میں گزارنا شروع کر دیا آپ کی دن تنہائی میں گزار دیں۔ اس مقصد کے لیے آپ نے مکہ سے کچھ فاصلے پر ایک غار جس کا نام ہی رہا تھا میں زیادہ وقت گزارنا شروع کر دیا آپ اکثر کھجور اور پانی وغیرہ ساتھ لے جاتے اور کسی گہری سوچ میں کھوئے رہتے تھے  ایک دن غار حرا میں عبادت میں مشغول تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خدا کا پیغام آپ تک پہنچایا۔

اعلان نبوت۔:

پہلے پہل تو آپ نے صرف خاندان والوں کو اسلام کی دعوت دی لیکن بعد میں اللہ تعالی نے پیغام دیا کہ سب جگہ اسلام کا پیغام پھیلانے دو۔ تو آپﷺ نے قریش والوں کو اسلام کی دعوت دی۔

آپﷺ  نے کفار کو اسلام کی دعوت دی کہ ایک خدا کی عبادت کرو بتوں کی پوجا چھوڑ دو برا طریقہ زندگی ترک کر دو۔ اس پر لوگ آپ کے مخالف ہوگئے کیونکہ وہ اپنے اباواجداد کا مذہب چھوڑنے کے لئے ہرگز تیار نہیں تھے۔

ہجرت مدینہ۔:

کفار مکہ نے آپ پر ظلم و ستم کرنے شروع کر دیے جو شخص سلام قبول کرتا ہے اس کا جینا دوبھر کر دیتے جب کفار مکہ کے ظلم و ستم انتہا کو پہنچ گئی تو انہوں نے آپ کو قتل کرنے کے منصوبے بنانے شروع کر دیئے خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی کے آپ مدینہ ہجرت کرجائیں چنانچہ آپ حضرت ﷺ  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ ہجرت کر گئے۔

مہاجرین اور انصار۔۔؛

مدینہ کے کچھ لوگ پہلے ہی اسلام قبول کر چکے تھے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو نے آپ کا خیرمقدم کیا اور آپ ﷺ  نے  مواخات کے ذریعے  مہاجرین و انصار کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا۔

فتوحات۔:

مدینہ منورہ میں اسلامی حکومت قائم ہوچکی تھی لیکن کفار مکہ نے وہاں بھی مسلمانوں کو چین سے نہ بیٹھنے دیا اب جہاد فرض ہو چکا تھا رسول اکرم کو کفار کے خلاف کئی جنگیں لڑنا پڑیں مثلا غزوہ بدر غزوہ خندق غزوہ خیبر وغیرہ میں حضور ﷺ نے دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہا کے ساتھ مکہ فتح کر لیا۔

وفات۔:

دس ہجری میں رسول اکرم نے ایک لاکھ اکرام کے ساتھ فریضہ حج ادا کیا اور اس موقع پر ایک تاریخی خطبہ دیا جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ اس خطبہ میں آپ نے اسلام کی اہم اور بنیادی تعلیمات بیان فرمائیں۔ حج سے واپسی پر آپ ﷺ  بخار میں مبتلا ہوگئے اور کئی روز تک بیمار رہے۔ آخر کار اسی بیماری میں پیر کے روز بارہ ربیع الاول 11 کو آپﷺ  انتقال فرمایا گیا

 

۔ علامہ محمداقبال

تعارف۔؛

ملت اسلامیہ کا ایسا کون سا فرض ہے جو اپنے سب سے بڑے مفکر شاعر علامہ اقبال سے واقف نہ ہو۔ اقبال وہ مرد درویش بنے جس نے خواب غفلت سوئی ہوئی قوم کو جھنجوڑا۔ وہ مرد قلندر جو خودی کا درس دیتا رہا جس کی حکیمانہ بصیرت اور ایمان افروز پیغام برصغیر سے نکل کر تمام دنیا میں پھیل گیا۔ یہ سیاسی مفکر کی فکری کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ جب ایک غلام قوم میر کارواں کے اشارے پر چلتی تو ایک عظیم مملکت وجود میں آگئی۔

خاندانی پس منظر۔۔

آپ کے والد کا نام شیخ نور محمد تا جو بڑے نیک دیانتدار عبادت گزار اور درویش صفت انسان تھے، آپ کے آباواجداد کشمیری پنڈت تھے جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کرلیا۔

پیدائش ۔

علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔

تعلیم۔ *

آپ نے ابتدائی